جمعہ کے دن ایصال ثواب کرنا کیسا؟
:سوال
زید جو کہ صالح مسلمان تھا بروز جمعہ صبح کے وقت اس کا انتقال ہوا، زید کے واسطے نماز جمعہ سے پہلے ختم قرآن اور تسبیحات وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو ( جمعہ کے دن وفات پانے کے سبب ) عذاب قبر سے محفوظ ہے پھر ایصال ثواب کی کیا ضرورت ہے؟
:جواب
جائز ہے جبکہ میت کی تجہیز و تکفین میں اس کے باعث تاخیر نہ ہو، اس کا اہتمام اور لوگ کرتے ہوں، نہ اس کے سبب ان پڑھنے والوں کو جمعہ میں تاخیر ہو جائے ، اس کے اہتمام کا وقت آنے سے پہلے فارغ ہو جائیں، اب یہ نفع بلاضرر اور اس حدیث صحیح کے عموم میں داخل ہے کہ ((من استطاع منكم ان ينفع اخاه فليفعل)) ((رواه مسلم جابر بن عبد الله رضى الله تعالیٰ عنہما)) یعنی جو اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو تو چاہئے کہ اسے فائدہ پہنچائے۔
صحیح مسلم، ج 2، ص 223 نور محمد اصح الطابع، کراچی
مزید پڑھیں:سوم، چہلم، برسی، عرس اور گیارہویں
یہ خیال کہ جب وہ بحکم حدیث ان شاء اللہ العزیز فتنہ قبر سے مامون ہے کہ اس مسلم کی موت روز جمعہ واقع ہوئی خصوصاً وہ خود ہی صالحین سے تھا تو اب ایصال ثواب کی کیا حاجت محض غلط اور بے معنی ہے، ایصال ثواب جس طرح منع عذاب یا رفع عقاب ( غضب کو دور کرنے) میں باذن اللہ تعالی کام دیتا ہے یونہی رفع درجات و زیادت حسنات میں اور حق سبحانہ وتعالی کے فضل اور اس کی زیادت و برکت سے کوئی غنی نہیں۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے اللذین احسنوا الحسنى وزيادة ) یعنی نکوکاروں کے لئے بھلائی ہے اور مزید بھی ہے۔
مزید پڑھیں:سوم یا تیجا کا ختم جائز ہے یا نہیں؟
سیدنا ایوب علیہ السلام کو مولی جل وعلا نے اموال عظیمہ عطا فرمائے تھے، ایک روز نہا رہے تھے کہ آسمان سے سونے کی ٹیریاں برسیں، ایوب علیہ الصلوۃ والسلام چادر میں بھر نے لگے ، رب عز و جل نے ندا فرمائی (یا ايوب الم اكن اغنيتك عما تری)) اے ایوب ! جو تمہارے پیش نظر ہے کیا میں نے تمہیں اس سے بے پروا نہ کیا تھا ؟ عرض کی ((بلی وعزتك ولكن لاغنى لي عن بركتك )) ضرور غنی کیا تھا تیری عزت کی قسم مگر مجھے تیری برکت سے تو بے نیازی نہیں ۔ رواہ البخاری واحمد والنسائي عن ابي هريرة رضى الله تعالیٰ عنہ (اسے امام بخاری و امام احمد و نسائی نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا )
(صحیح البخاری ، ج 1 ص 480 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مزید پڑھیں:کیا ختم پڑھنے سے کھانا حرام ہو جاتا ہے؟
جب حق جل وعلا کی دنیا وی برکت سے بندے کو غنا نہیں تو اس کی دینی برکت سے کون بے نیاز ہو سکتا ہے، صلحاء تو صلحاء خود اعاظم اولیاء بلکہ حضرت انبیاء بلکہ خود حضور پر نور نبی الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو ایصال ثواب زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے اب تک معمول ہے، حالانکہ انبیاء کرام علیہم السلام قطعاً معصوم ہیں، تو موت جمعہ یا صلاح کیا مانع ہو سکتی ہے۔ ردالمحتار میں ہے” حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وصال کے بعد بغیر کسی وصیت کے ان کی طرف سے عمرے کیا کرتے تھے۔
(ردالکتار، ج 1، ص 605، دار احیاء تراث العربی، بیروت) (ص 606)
مزید پڑھیں:دیوبندی سے فاتحہ اور ایصال ثواب کا ثبوت
READ MORE  قبرستان میں آیات کا ثواب ایصال کرنا

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top