کیا ثواب سب کو تقسیم ہو کر پہنچتا ہے؟
:سوال
ابن قیم ظاہری کا قول یہ ہے کہ ثواب سب کو تقسیم ہو کر پہنچے گا۔
:جواب
فتوی علماء کہ سب کو ثواب کامل ملے گا، اس قول ابن قیم پر بچند وجه مرجح ( چند وجوہات سے فوقیت رکھتا ) ہے:
او لا ابن قیم بد مذہب ہے، تو اس کا قول علمائے اہلسنت کے مقابل معتبر نہیں۔
ثانیا وہ اسی کا قول ہے اور یہ ایک جماعت کا فتوی والعمل بما عليه الاکثر ( اور محل اس پر ہوتا ہے جس پر اکثر ہوں)۔
ثالثاً وهو الطراز المعلم (اور وہی نقش با نگار ہے، یعنی زیادہ مضبوط جواب ہے ۔) ثواب واحد کا سب پر منقسم ہونا ایک ظاہری بات ہے جسے آدمی بنظر ظاہر اپنی رائے سے کہہ سکتا ہے۔ عالم شہود میں یونہی دیکھتے ہیں ، ایک چیز دس کو دیجئے تو سب کو پوری نہ لمے گا ہرایک کو ٹکڑاٹکڑا پہنچے گا۔ غالبا اس ظاہری نے اسی ظاہری بات پر نظر اور معقول (عقلی چیز ) کو محسوس ( حسی چیز )پر قیاس کر کے تقسیم کا حکم دے دیا، نہ کہ حدیث سے اس پر دلیل پائی ہو بخلاف اس حکم کمال ہے کہ اگر کروڑوں کو بخشو تو ہر ایک کو پورا ثواب ملے ایسی بات بے سند شرعی اپنی طرف سے نہیں کہ سکتے تو ظاہر کہ جماعت اہل فتوی نے جب تک شرع مطہر سے دلیل نہ پائی ہرگز اس پر جزم نہ فرمایا
مزید پڑھیں:سوم (تیجہ) کے چنوں کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
بلکہ تصریح علماء سے ثابت کہ جو بات رائے سے نہ کر سکیں وہ اگرچہ علماء کا ارشاد ہو حدیث مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے حکم میں سمجھا جائے گا۔ آخر جب یہ عالم متدین ( دین دار عالم ) ہے اور بات میں رائے کو دخل نہیں تولا جرم حدیث سے ثبوت ہوگی ، امام علامہ قاضی عیاض نے سریج بن یونس رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ سیاح فرشتے ہیں جن کے متعلق یہی خدمت ہے کہ جس گھر میں احمد یا محمد نام کا کوئی شخص ہو اس گھر کی زیارت کیا کریں۔ علامہ خفاجی مصری اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں ” هو ظاهر وان كان السريج فهو في حكم المرفوع لان مثله لا يقال بالرای ” یہ اگر چہ سریج کا قول ہے مگر وہ مرفوع کے حکم میں ہے اس لئے کہ ایسی بات رائے سے نہیں کہی جاتی ۔
نسیم الریاض، ج 2، ص 225 ، دار الفکر بیروت
یہ سریج نہ صحابی ہیں نہ تابعی نہ تبع تابعین میں ہے، بلکہ علمائے مابعد سے ہیں، بایں ہمہ علامہ خفاجی نے ان کے قول مذکور کو حدیث مرفوع کے حکم میں ٹھہرایا کہ ایسی بات رائے سے نہیں کہی جاتی ، اسی طرح مانحن فیہ ( زیر بحث مسئلہ ) میں بھی کہہ سکتے ہیں کہ علماء کا وہ فتوی بھی حدیث مرفوع کے حکم میں ہونا چاہئے۔ فقیر غفر اللہ تعالی لہ نے خاص اس بات میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے تین حدیثیں پائیں
(شعب الایمان ، ج 8 ص 205 ، دار الكتب المعلمية ، بیروت )
مزید پڑھیں:فاتحہ میں گھی کے چراغ، کپڑے، جوتی وغیرہ رکھنا کیسا ہے؟
حدیث اول : حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ) ( من حج عن والديه بعد وفاتهما كتب الله له عتقا من النار وكان للمحجوج عنهما أجر حجة تا مة من غير ان ينقص من اجور هما شي)) جو اپنے ماں باپ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد حج کرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھے، اور ان دونوں کے لئے پورے حج کا اجر بغیر اس کے کہ ان کے ثوابوں میں کچھ کمی ہو۔ اگر ثواب نصف نصف ملتا تو اس آدھے میں سے کمی ہو جانے کا کیا احتمال تھا جس کی نفی فرمائی گئی، ہاں وہی اجر یہاں اجور ہو جائے ۔ ہر ایک پورا پورا بے کی پائے ، یہ خلاف عقل ظاہر تھا۔ تو اس کا افادہ ضرور مفید و اہم ہے۔
حدیث دوم : حضور پر نور صل اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ((ما على احدكم اذا ارادان يتصدق الله صدقة تطوعا ان يجعلها عن والدية اذا كانا مسلمين فيكون لوالديه اجره، وله مثل أجورهما بعد ان لا ينقص من أجورهما شیء )) جب تم میں سے کوئی شخص کسی صدقہ نافلہ کا ارادہ کرے تو اس کا کیا حرج ہے کہ وہ صدقہ اپنے ماں باپ کی نیت سے دے کہ انھیں اس کا ثواب پہنچے گا اور اسے ان دونوں اجروں کے برابر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے ثوابوں میں کچھ کمی ہو۔
الجامع الصغير، ج 5 ص 488، دار المعرفة ، بیروت
ان دونوں حدیثوں میں اگر کچھ تشکیک کی جائے تو حدیث سوم گویا نص صریح جس نے بحمدہ تعالی اس امید کمال (پورا پورا ثواب ملنے کی امید ) کو قوی کر دیا، اور فتوی علماء کی تاکیدا کید فرمادی کہ ہر ایک کو کامل ثواب ملے گا۔
مزید پڑھیں:سوم کے چنوں کا کھانا بڑوں کو بھی جائز ہے یا نہیں؟
حدیث سوم: حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ((اذا حج الرجل عن والديه تقبل منه ومنهما واستبشرت ارواحهمة، وكتب عند الله برا )) جب آدمی اپنے والدین کی طرف سے حج کرے وہ حج اس حج کرنے والے اور ماں باپ تینوں کی طرف سے قبول کیا جائے اور ان کی روحیں خوش ہوں، اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا نیکو کار لکھا جائے ۔
سنن الدار قطنی ، ج 2، ص 260 نشرت النيه المان
ظاہر ہے کہ حج ایک عبادت واحدہ ہے جس کا بعض کافی نہیں ، نہ وہ کل سے معنی ہو، بلکہ قابل اعتبار ہی نہیں، جیسے فجر کی دورکعتوں سے ایک رکعت ، یا صبح سے دوپہر تک کا روزہ تو یہ حج کہ ان دونوں کی طرف سے کافی ہو، ضرور ہے کہ ہر ایک کی جانب سے پورا حج واقع ہو، مگر فقہ میں مبین (واضح) و مبرہن ( دلائل و براہین سے مزین ) ہولیا کہ یہ اجزاء بمعنی اسقاط فرض نہیں تولا جرم (ضروری ہوا کہ ) یہی معنی مقصود کہ دونوں کو کامل حج کا ثواب ملے۔
مزید پڑھیں:کیا ایصال ثواب کرنے سے سب کو پورا ثواب ملے گا؟
READ MORE  گائے بھینسوں پر کتنی مقدار پر زکوۃ لازم ہوتی ہے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top