کیا موت سے روح میں اصلاً تغیر نہیں ہوتا؟
:سوال
کیا موت سے روح میں اصلاً تغیر نہیں ہوتا ؟ اس کے علوم وافعال وہی رہتے ہیں ؟
: جواب
موت سے روح میں اصلا تغیر نہیں آتا اور اس کے علوم وافعال بدستور رہتے ہیں بلکہ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ امام غزالی احیاء میں فرماتے ہیں
” لا تظن ان العلم يفارقك بالموت فالموت لا يهدم محل العلم اصلا وليس الموت عدما محضاً حتى تظن انك اذا عدمت عدمت صفتك “
یہ گمان نہ کرنا کہ موت سے تیرا علم ہے کہ موت سے تیرا علم تجھ سے جدا ہو جا را ہو جائیگا کہ موت محل علم یعنی روح کا تو کچھ نہیں بگاڑتی، نہ وہ نیست ونابود ہو جانے کا نام ہے کہ تو سمجھے جب تو نہ رہا تیرا وصف یعنی علم اور اک بھی نہ رہا۔
(التیسیر ، ج 1، ص 310 مكتبہ الامام الشافعي، الرياض السعودية )
امام نسفی عمدة الاعتقاد، پھر علامہ نابلسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں الروح لا يتغير بالموت “ مرنے سے روح میں کچھ نہیں آتا۔
الحديقة الندية ، ج 1 ، ص 290 ، مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد)
امام سیوطی فرماتے ہیں
” ذهب اهل الملل من المسلمين وغيرهم الى ان الروح تبقى بعد موت البدن
تمام اہل ملت مسلمین اور ان کے سوا سب کا یہی مذہب ہے کہ رو حیں بعد موت بدن باقی رہتی ہیں۔
(شرح الصدور ص 135، خلافت اکیڈمی سوات)
مزید پڑھیں:میت والے گھر ایک قبیح رسم کا حکم
امام جلال الدین سیوطی رسالہ منظومہ انیس الغریب میں فرماتے ہیں
یعرف من يغسله ويحمل ويبلس الاكفان ومن ینزل
مر وہ اپنے نہلانے والے، اٹھانے والے، کفن پہنانے والے، قبر میں اتارنے والے سب کو پہچانتا ہے۔
(انیس الغریب)
امام ابن الحاج مدخل ، امام قسطلانی مواہب ، علامہ زرقانی شرح میں فرماتے ہیں
“من انتقل الى عالم البرزخ من المؤمنين يعلم احوال الاحياء غالباً وقد وقع كثير من ذلك كما هو مسطور في مظنة ذلك من الكتب “
جو مسلمان برزخ میں ہیں اکثر احوال احیاء پر علم رکھتے ہیں اور یہ امر بکثرت واقع ہے جیسا کہ کتابوں میں اپنے محل پر مذکور ہے۔
(المواہب اللد نیہ ج 4 ص 581 المکتب الاسلامی، بیرت )
ابن ابی الدنیا کتاب القبور میں سلیم بن عمیر سے راوی، وہ ایک مقبرہ پر گزرے، پیشاب کی حاجت سخت تھی کسی نے کہا یہاں اتر کر قضائے حاجت کر لیجئے ، فرمایا “
سبحان الله والله اني لاستحيى من الاموات كما استحيى من الاحياء
سبحان الله! خدا کی قسم میں مردوں سے ایسی ہی شرم رکھتا ہوں جیسی زندوں سے۔
مزید پڑھیں:جو جمعرات کو انتقال کرے کیا وہ عذاب قبر سے محفوظ ہو جاتا ہے؟
(مرقاۃ شرح مشکوة ، ج 4، ص 117 ، بحوالہ ابن ابی الدنیا، مکتبہ امدادیہ ملتان )
جب سیدنا امام شافعی مزار فائض الانوار حضرت امام اعظم پر تشریف لے گئےرضی اللہ تعالی عنہا عن اتباعہما نماز صبح میں قنوت نہ پڑھی، لوگوں نے سبب پوچھا، فرمایا “
كيف اقنت بحضرة الامام وهو لا يقول بہ
میں امام کے سامنے کیونکر قنوت پڑھوں ) حالانکہ وہ اس کے قائل نہیں۔
الميزان الکبری، ج 1، ص 61 مصطفی البابی مصر
بعض روایات میں آیا بسم اللہ شریف بھی جہر سے نہ پڑھی۔
بعض میں ہے تکبیرات انتقال میں رفع یدین نہ فرمایا، سبب دریافت ہوا، جواب دیا
“ادبنا مع هذا الامام اكثر من ان نظهر خلافه بحضرته “
اس امام کے ساتھ ہمارا ادب اس سے زائد ہے کہ ان کے حضور ان کا خلاف ظاہر کریں۔
(مرقاہ شرح مشکوۃ) شرح لباب میں خاص بلفظ استحیال نقل کیا کہ امام شافعی نے فرمایا “
استحبى ان اخالف مذهب الامام في حضوره
مجھےشرم آتی ہے کہ امام کے سامنے ان کے مذہب کے خلاف کروں۔
مزید پڑھیں:اگر قبر پر کوئی شخص جائے تو اس کا علم میت کو ہوتا ہے؟
( منسک متوسط مع ارشاد الساری)
سبحان اللہ اگر اموات دیکھتے سنتے نہیں تو جہر واخفاء (بسم اللہ میں جہر واخفاء کرنے ) یا رفع و ترک (ہاتھ اٹھانے اور ترک کرنے ) و مکث قنوت و تعجیل سجود ( قنوت چھوڑنے اور جلدی سجدہ کرنے ) میں کیا فرق تھا، للہ انصاف ! اگر بنائے قبر حجاب مانع ہو تو امام ہمام کا سامنا کہاں تھا اور اس ادب و لحاظ کا کیا باعث تھا۔
حدیث میں جو تکیہ قبر پرلگانے سے ممانعت فرمائی اور اسے ایذائے میت ارشاد ہوا جیسا کہ حدیث میں گزرا، شیخ محقق ہیں شاید رحمہ اللہ اس پر شرح مشکوۃ میں لکھتے
شایدکه مراد آنست که روح وے ناخوش می دارد و راضی نیست به تکیه کردن بر قبرے از جهت تضمن وے اهانت و استخفاف را بوی “
ہو سکتا ہے کہ یہ مراد ہو کہ اس کی روح کو نا گوار ہوتا ہے اور وہ اپنی قبر پر تکیہ لگانے سے راضی نہیں ہوتی اس لیے کہ اس میں اس کی اہانت اور بے وقعتی پائی جاتی ہے، اور خدا خوب جاننے والا ہے۔
عارف باللہ حکیم تر مذی پھر علامہ نابلسی حدیقہ میں فرماتے ہیں ” معناه ان الارواح تعلم بترك القامہ الحرمة والاستهانة فتاذی بذلك ” اس کے یہ معنی ہیں کہ رو میں جان لیتی ہیں کہ اس نے ہماری تعظیم میں قصور کیا لہذا را ایذا پاتی ہیں۔
نو ادر الاصول ص 244 ، دار صادر، بیروت)
حاشیہ طحطاوی وردالمختار وغیرہ میں ہے کہ مقابر میں پیشاب کرنے کو نہ بیٹھے
لان الميت بتاذي بما يتاذى به الحي
اس لیے کہ جس سے زندوں کو اذیت ہوتی ہے اس سے مردے بھی ایذا پاتے ہیں۔
حاشیہ الطحطاوی علی الدر، ج 1، ص 381 دار المعرفہ ، بیروت )

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 750 تا 754

READ MORE  عید کی نماز پڑھنے کے بعد پھر امام بن کر نماز پڑھانا کیسا؟
مزید پڑھیں:روحیں نہیں مرتیں، اس بارے میں علماء کے کچھ اقوال
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top