صلوۃ غوثیہ کے بعد عراق کی جانب گیارہ قدم چلنا کیسا؟
:سوال
زید کہتا ہے کہ صلوۃ غوثیہ میں نماز کے بعد عراق کی گیارہ قدم چلنا ایک مہمل سے بات ہے۔
:جواب
جب ( ما قبل میں ) معلوم ہو لیا کہ حق جل و علا عز مجدہ کی طرف اس کے محبوبوں سے توسل محمود مقصود و سنت ماثورہ دوطریقہ مامورہ (ہے) ، اور ( یہ بات بھی یا درکھو کہ ) ہنگام توسل ( توسل کے دوران ) ان کی جانب توجہ درکار ( ہوتی ہے )، یہاں تک کہ جب خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی نے سید نا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: دعا میں قبلہ کی طرف منہ کروں یا مزار مبارک حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف؟ فرمایا: ولم تصرف وجهك عنه وهو وسيلتك ووسيلة ابيك ادم عليه الصلوة والسلام إلى الله تعالى يوم القيمة بل استقبله واستشفع به فيشفعك الله تعالی ” کیوں اپنا منہ ان سے پھیرتا ہے وہ قیامت کو تیرا اور تیرے باپ آدم علیہ الصلوة والسلام اللہ تعالی کی طرف وسیلہ ہیں بلکہ انہیں کی طرف منہ کر اور شفاعت مانگ کہ اللہ تعالی تیری درخواست قبول فرمائے۔
مزید پڑھیں:کیا قضاء نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں؟
(کتاب الشفاء، ج 2 میں،ص 35 ،مطبوعہ شرکۃ صحانیۃ في بلاد عثمانیۃ )
اور سوال حاجت سے پہلے دور کعت نماز کی تقدیم مناسب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ( صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو)پھر کامل اکسیر یہ ہے کہ کسی محبوب خدا کے قریب جائیے اسی طرف حق جل وعلا نے قرآن عظیم میں ہدایت فرمائی کہ ارشاد کرتا ہے (وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءَ وَكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ توَّابًا رَّحِیمان ) اور اگر وہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے حضور حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول اُن کے لئے استغفار کرے تو بیشک اللہ تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ سبحان اللہ خدا ہر جگہ سنتا ہے اور بے سبب مغفرت فرماتا ہے مگر ارشادیوں ہوتا ہے کہ گنہ گار بندے تیری خدمت میں حاضر ہو کر ہم سے دعائے بخشش کریں
اور قدیما وحدیثا علماء وصلحا اس آیہ کریمہ کو زمانہ حیات و وفات سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عام اور حاضری مزار مبارک کو حاضری مجلس اقدس کی مثل سمجھا کئے اور اوقات زیارت میں یہی آیہ کریمہ تلاوت کر کے اللہ تعالی سے استغفار کرتے رہے۔۔۔ (اس بات پر دلائل دینے کے بعد فرماتے ہیں ) تو ثابت ہوا کہ محبوبان خدا کی طرف جانا اور بعد وصال اُن کی قبور کی طرف چلنا دونوں یکساں جیسا کہ سید نا امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا امام ابو حنیفہ کے مزار فائض الانوار کے ساتھ کیا کرتے۔ اب یہ کہ گدائے سرکار قادر یہ اس آستان فیض نشان سے دور و مہجور ہے گو بعد نماز مزار اقدس تک جانے کی حقیقت اسے میسر نہیں تا ہم دل سے توجہ کرنا اور چند قدم اس سمت چل کر ان چلنے والوں کی شکل بنا تا ہے کہ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حدیث حسن میں فرمایا ” من تشبه بقوم فهو منهم “ترجمہ : جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ انہیں سے ہے۔
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ صحابہ کرام سے منقول نہیں
(مسند احمد بن حنبل ،ج 2 ،ص 50، دار الفکر، بیروت )
ثانیاً: توسل میں توجہ باطن ضرور اور ظاہر عنوان باطن، لہذا یہ چلنا مقرر ہوا کہ حالت قالب ( جسم کی حالت ) حالت قلب پر شاہد ہو جس طرح سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے استسقا (طلب بارش) میں قلب ردا ( چادر کو الٹا ) فرمایا کہ قلب لباس (لباس کا الٹنا ) قلب احوال ( احوال کے تبدیل ہونے ) و کشف باس ( اور مصیبت کے دور ہونے ) کی خبر دے۔ شاہ ولی اللہ نے قول الجمیل میں قضائے حاجت کے لئے ”صلو۔ہ کن فیکون “ کی ترکیب لکھی جس کے آخر میں ہے کہ پھر پگڑی اتارے، آستین گلے میں ڈالے، پچاس بار دعا کرے، ضر ور مستجاب ہو۔
(القول الجميل مترجم اردو ،ص 73 ، ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)
اس پر ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں” بعض نا واقفوں نے اعتراض کیا ہے، آستین گردن میں ڈالنا کیونکر جائز ہوگا ، حالانکہ ادعیہ ماثورہ میں یہ ثابت نہیں، ہم جواب دیتے ہیں کہ قلب ردا یعنی چادر کا الٹنا پلٹنا نماز استسقاء میں رسول علیہ السلام سے ثابت ہے تا حال عالم کا بدل جائے تو اس طرح آستین گردن میں ڈالنا، امر مخفی کے اظہار کے واسطے یعنی تضرع کے ،واسطے حصول شعار گردش حال کے یا مقصود کے کیونکرنا جائز ہوگا
(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل،ص 74، ایچ ایم سعیدکمپنی، کراچی)
میں کہتا ہوں جب آستین گلے میں باندھنا با آنکہ طرق ماثورہ میں وارد نہیں ، اس وجہ سے کہ اس میں تضرع مخفی کا اظہار شدید ہے، اگر چہ نفس اظہار گڑ گڑانے کی صورت سے حاصل تھا۔ جائز ٹھہرا تو یہ چند قدم جانب عراق محترم چلنا اس وجہ سے کہ اس میں تو جہ خفی کا اظہار قوی ہے کیونکر نا جائز ہوگا۔
ثالثاً: ظاہر صلح خاطر (ظاہر دل کی اصلاح کرنے والا ہے ( ولہذا جس امر میں جمع عزیمت و صدق ارادت کا اہتمام چاہتے ہیں وہاں اس کے مناسب احوال و جوارح رکھے جاتے ہے جاتے ہیں کہ ان کی مدد سے خاطر جمع ( قلبی خیالات مجتمع) اور انتشار دفع ہو، اسی لئے نماز میں تلفظ ( نیت کے زبان سے تلفظ کرنے کو ) بہ نیت قصد جمع عزیمت ( ارادے کو مجتمع کرنے کی نیت سے ) علماء نے مستحسن رکھا كما في المبسوط والهداية والكافي والحلبة وغيرها ( جیسا کہ مبسوط، ہدایہ کافی اور حلیہ وغیر ہ میں ہے)۔
شاہ ولی اللہ حجۃ البالغہ میں لکھتے ہیں ” من جبلة الانسان انه اذا استقر في قلبنه شيء جرى حسب ذلك الاركان و اللسان وهو قوله صلى الله تعالى عليه وسلم ان في جسد ابن آدم مضغة الحديث ففعل اللسان ولاركان اقرب مظنة وخليفة لفعل القلب”ترجمہ: انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی چیز اس کے دل میں میں جم جاتی ہے تو اعضاء اور زبان اس کے مطابق حرکت کرتے ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد مبارک کا کہ انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے الحدیث، پس زبان اور اعضاء کی حرکت دل کے فعل کے تابع ہوتی ہے
مزید پڑھیں:کیا محبوبان خدا کی تعظیم ضروری ہے؟
(حجۃ اللہ البالغہ، ج2،ص5، المكتبۃ السلفیہ ، لاہور )
اور یہی سر ( راز ) ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین (ہاتھ اٹھانا ) اور تشہد میں انگشتِ شہادت ( شہادت کی انگلی ) سے اشارہ مقرر ہوا ، شاہ ولی اللہ اسی کتاب میں لکھتے ہیں “الهيأة المندوبة ترجع الى معان، منها تحقيق الخضوع كصف القدمين، ومنها محاكاة ذكر الله تعالى باصابعه ويده حذو ما يعقله بحنانه كرفع اليدين و الاشارة بالمسبحة ليكون بعض الامر معاضداً لبعض ، ملخصا” ترجمہ: مستحب حالت کئی معانی کی طرف راجع ہے، ایک خشوع کا پایا جانا ، جیسے قدموں کا برابر ہونا، اور ایک اللہ کے ذکر کی حکایت ہاتھ اور انگلیوں سے کرنا تا کہ دل میں جو کچھ ہے اس کی مطابقت ہو سکے، جیسے ہاتھ اٹھانا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا جس سے بعض افعال کی بعض سے تقویت ہوتی ہے۔
(حجۃ اللہ البالغہ، ج2،ص7،مطبوعہ المكتبۃ السلفیہ ، لاہور )
اور اسی قبیل سے ہے دعا میں ہاتھ اٹھانا چہرے پر پھیرنا ، شاہ ولی اللہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ افعال رغبت باطنی کی تصویر بنانے کو ہیں کہ قلب اس پر خوب متنبہ ہو جائے اور حالت قلب ( دل کی حالت ) ہیات ( ظاہری حالتوں ) سے تائید پائے۔ کتاب مذکور میں ہے ”امار اما رفع اليدين ومسح الوجه بهما فتصوير للرغبة مظاهرة بين الهيأة النفسانية وما يناسبها من الهيأة البدنية وتنبيه للنفس على تلك الحالة ” ترجمہ: اور ہاتھ اٹھانا اور دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر ملنا یہ اپنی دعا میں رغبت کا اظہار ہے اور ہیئت نفسانیہ کی تصویر اور ہیت بدنیہ کی مناسبت ہے اور نفس کو اپنی حالت پر تنبیہ ہے۔
(حجۃاللہ البا لغہ،ج 2 ،ص 75 مطبوعہ المكتبۃ السلفیہ،لاہور)
بعینہ یہی حالت اس چلنے کی ہے کہ رغبت باطنی کی پوری تصویر بناتا اور قلب کو انجذاب تام پر متنبہ کرتا ہے جیسا کہ اس عمل شریف کے بجالانے والوں پر روشن، گو منکر محروم بے خبر باش ع ذوق ایں مے نہ شناسی بخدا تا نچشی ( اس شراب کا مزہ تو اسے چکھے بغیر نہ پاسکے گا )۔
رابعاً : سنت نبو بیہﷺ ہے کہ جہاں انسان سے کوئی تقصیر واقع ہو عمل صالح وہاں سے ہٹ کر کرے اس لئے جب ایک بار سفر میں آخر شب حضو اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وصحابه او صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے نزول فرمایا اور آنکھ نہ کھلی یہاں تک کہ آفتاب چمکا ، حضور نے وہاں نماز نہ پڑھی اور فرمایا اس جگہ شیطان حاضر ہوا تھا اپنے مرکبوں ( سواریوں ) کو یونہی لئے چلے آؤ، پھر وہاں سے تجاوز فرما کر نماز قضا کی۔
( صحیح مسلم ، ج 1 ،ص 238 ،نور محمد، کراچی )
یہاں بھی جب یہ محتاج دو رکعت نماز پڑھ چکا اور اب وقت وہ آیا کہ جہت توسل کی طرف منہ کر کے اللہ جل جلالہ سے دعا چاہتا ہے نفس نماز میں جو قلت حضور و غیرہ قصور سرزد ہوئے یاد آئے اور سمجھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان کے دخل نے مجھ سے مناجات الہی میں تقصیر کرادی، ناچار ہٹتا ہے اور پُر ظاہر کہ : کہ جہت توجہ اس کے لئے اولی وایسر ( اولی اور آسمان ہے ) یمیا و شمالا انصراف (دائیں بائیں پھرنے) میں ترک توجہ اور رجعت قہقری (الٹے پاؤں پھرنا) بعد ( دوری) کی صورت اور اقبال ( آگے جانا ) نشان اقبال ( آگے بڑھنے یعنی مقصود پانے کی علامت ہے ) فكان هو المختار (لہذا یہی مختار ہے )۔
مزید پڑھیں:کیا محبوبان خدا کی تعظیم ضروری ہے؟
خامساً : خادم شرع جانتا ہے کہ صاحب شرع صلوات اللہ وسلامہ علیہ کو باب دعا میں تفاؤل (اچھے شگون ) پر بہت نظر ہے اس لئے استسقاء (طلب بارش ) میں قلب ردا ( چادر کوالٹا ) فرمایا کہ تبدل حال کی فال ( حالت کی تبدیلی پر شگون ) ہو۔ سنن دار قطنی میں ہے ” انه صلى الله تعالى عليه وسلم استسقى وحوّل رداءه للبيتحول القحط ” ترجمه: آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ( بارش کے لئے دعا میں ) چادر مبارک الٹی تا کہ قحط ختم ہو جائے۔
(سنن الدارقطنی،ج2،ص 66 ،مطبوعہ نشر السنۃ، ملتان)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں ” قالوا والتحويل شرع تفاؤلا بتغيير الحال من القحط الى نزول الغيث و الخصب ومن ضيق الحال الى سعته ” ترجمہ: ائمہ کرام نے فرمایا کہ چادر الٹانا اس لئے مشہور ہے کہ قحط سے بارش کی طرف اور تنگی سے خوشحالی کی طرف حالت کو تبدیل کرنے کے لئے نیک فال بن سکے۔
(شرح مسلم للنووی مع مسلم ، ج 1 ، ص 292، نور محمد اصح المطابع، کراچی )
اسی لئے بدخوابی ( برا خواب آنے ) کے بعد جو اس کے دفع شر کی دعا تعلیم فرمائی ، ساتھ ہی یہ بھی ارشاد ہوا کہ کروٹ بدل لے تا کہ اس حال کے بدل جانے پر فال حسن ( اچھا شگون ) ہو حضور صلی الله تعالی علیہ و سلم نے فرمایا ” اذا رأي احدكم الرؤيا يكرهها فليبصق عن يساره ثلثا وليستعذ بالله من الشيطان ثلثا وليتحول عن جنبه الذي كان عليه ” ترجمه: جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو تین مرتبہ بائیں جانب تھو کے اور اعوذ باللہ من الا اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم تین مرتبہ پڑھے او اپنی کروٹ دوسری جانب بدلے۔
(صحیح مسلم ، ج 2 ،ص 241 ، نور محمد اصح مطا بع ، کراچی)
علامہ مناوی تیسیر میں لکھتے ہیں” تفاؤلا بتحول تلك الحال ” ترجمہ: تاکہ اس سے نجات کے لئے نیک فال بن سکے۔ اسی لئے ہنگام استقا ( بارش طلب کرنے کے دوران ) پشت دست ( ہاتھ کی پشت ) جانب آسمان رکھے کہ ابر (بادل) چھانے اور باران (بارش) آنے کی فال ہو۔ اسی لئے علماء نے مستحب رکھا (کہ) جب دفع بلا کے لئے دعا ہو پشت دست ( ہاتھ کی پشت ) سوئے سما ( آسمان کی جانب ) ہو، گو ہاتھوں سے آتش فتنہ کو بجھاتا اور جوش بلا کو دباتا ہے۔ اسی لئے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا مسنون ہوا کہ حصول مراد قبول دعا کی فال ہو گویا دونوں ہاتھ خیر و برکت سے بھر گئے اس نے وہ برکت اعلی و اشرف اعضا پر الٹ لی کہ اس کے توسط سے سب بدن کو پہنچ جائے گی۔ ترندی و حاکم کی حدیث میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے ہے ” كان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم اذا رفع يديه في الدعاء لم يحطهما حتى يمسح بهما وجهه ” ترجمہ : حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے تو چہرہ مبارک پر پھیرے بغیر ہاتھوں کو نیچے نہ کرتے۔
( جامع الترمذی ، ج 2 ،ص 174 ، امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ، دہلی )
علامہ عبدالروف مناوی تیسیر میں فرماتے ہیں ”تفاؤلا باصابة المراد و حصول الامداد” تر جمہ: مراد کو پانے اور امداد حاصل کرنے کے لئے نیک فال کے طور پر۔
( التیسير شرح الجامع الصغير، ج 2 ،ص 250 ، مکتبہ امام الشافعی، الریاض )
اور ابو داؤد کی حدیث حسن” ان النبي صلى الله تعالى عليہ وسلم كان اذا دعا فرفع يديه مسح وجهه بیدیه ” ترجمہ: حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تو ہاتھ اُٹھا کر چہرہ مبارک پر ملتے۔
اسکے نیچے لکھا ”تفاؤلا وتيامنا بان كفيه ملئتا خيرا فافاض منه علی وجه ” ترجمہ: یہ نیک فال ہو سکے ہاتھ خیر سے بھر گئے ہیں اور اس خیر کو چہرہ پر فائض فرمایا۔
(التیسير شرح الجامع الصغير، ج 2 ،ص 249 ، مکتبہ امام الشافعی، الریاض )
ایک اور حدیث کے تحت میں لکھا ”تفاؤلا باصابة المطلوب وتبركا بايصاله إلى وجهه الذي هو اشرف الاعضاء و منه يسرى الى بقية البدن” ترجمہ: تاکہ نیک فال ہو سکے کہ مطلوب پالیا اور اس کو برکت کے لئے چہرے تک پہنچایا جو کہ اعضا میں ا فضل ہے اور اس سے تمام بدن میں سرایت کرے۔
(التیسیر شرح الجامع الصغير،ج 2 ،ص 250 ،مکتبہ امام الشافعی ،الریاض)
اسی طرح صاحب شرع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نائب جلیل رضی اللہ تعالی عنہ نے مقاصد شرع پر لحاظ فرما کہ خاص ان کے موافق یہ چلنا مقرر فر ما یا کہ نفی اعراض و عطائے قربت و حصول اغراض و اقبال اجابت کے لئے فال حسن ہو۔
سادساً: صحیح مسلم شریف میں بروایت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ ثابت کہ سید عالم صلی الله تعالی علیہ و سلم عین نماز میں چند قدم آگے بڑھے جب جنت خدمت اقدس میں اتنی قریب حاضر کی گئی کہ دیوار قبلہ میں نظر آئی یہاں تک کہ حضور بڑھے تو اس کے خوشہ ہانے انگور دست اقدس کے قابو میں تھے اور یہ نماز صلوۃ الکسوف تھی۔
(صحیح مسلم،ج 1 بس،ص 297 ،مطبو عہ نور محمد اصح المطا بع،کراچی)
اسی طرح جب ارباب باطن و اصحاب مشاہدہ یہ نماز پڑھ کر بروجہ تو سل عراق شریف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں انوار و برکات و فیوض و خیرات اس جانب مبارک سے باہزاراں جوش و ہجوم پیہم آتے نظر آتے ہیں، یہ بیتابانہ ان خوشہائے انگور جنات نور و باغات سرور کی طرف قدم شوق پر بڑھتے اور ان عزیز مہمانوں کے لئے رسم با جمال تلقی و استقبال بجالاتے ہیں، سبحان اللہ کیا جائے انکار ہے اس نیک بندے پر جو اپنے رب کی برکات و خیرات کی طرف مسارعت ( جلدی ) کرے ۔ رہے ہم عالی جن کا حصہ یہی شقشقہ لسان و اضطراب ارکان ہے ۔ ۔ ہم اس امر جمیل میں اُن اہل بصائر کے طفیلی ہیں۔
جیسے نماز کہ اس کے اکثر افعال و احکام ان اسرار و حکم ( رازوں اور حکمتوں) پر مبنی جو حقیقۃ صرف احوال سنیہ اہل قلوب پر مبتنی ، پھر عوام بھی صورت احکام میں ان کے مشارک مثلاً نماز نہاری ( دن کی نماز ) میں اخفاء ( آہستہ قرآت ) واجب ہوا ور لیلی ( رات کی نماز ) میں جہر ( بلند آواز سے قرآت ) کہ لیل (رات) آیت لطف ( علامت لطف ) ہے اور اس کی تجلی لطیف اور نہار (دن) آیت قہری ( علامت قہری ) ہے اور اس کی تجلی شدید پھر تجلی جہری سری سے بہت قوی و گرم تر ، لہذا تعدیل ( برابری) کے لئے تجلی قہری کے ساتھ ٹھنڈی تجلی رکھی گئی اور لطفی کے ساتھ گرم ۔ جمعہ وعیدین میں باوجود نہار ی حکم جہر ہوا کہ بوجہ کثرت حاضرین انس حاصل اور دہشت زائل اور قلب بوجہ شہود تجلی سے قدرے ذاہل بھی ہوگا، معہذا ایک ہفتہ کی تقصیرات جمع ہو کر حجاب میں گونہ قوت پیدا کرتی ہیں تو گا ہے ما ہے یہ معالجہ مناسب بھی ہوا جو اپنی حرارت سے اسے گلا دے جیسے اطباء خطوط دقیقہ دیکھنے سے منع کرتے اور نادرا بغرض تمرین ( مشق کی غرض سے ) اسے علاج سمجھتے ہیں۔
اور کسوف ( چاند گر اہن ) میں گو جماعت کثیر اور وقفہ طویل ہے پھر بھی اخفاء ہی رہا کہ وہ وقت تخویف ( خوف دلانے والا وقت ہے )و تجلی جلال اور وقفہ طویل ہے جہر نہ ہو سکے گا، اسی لئے ہمارے نزدیک نماز جنازہ میں اصلاً قراءت نہیں کہ یہ ہیبت عظیم و تجلی جلال، تجلی شدید قرآنی سے جمع نہ ہو اور جو قراءت کہتے ہیں وہ بھی جہر نہیں رکھتے کہ شدت بر شدت بڑھ جائے گی۔ شب کو آٹھ رکعت تک ایک نیت سے جائز اور دن کو چار سے زیادہ منع کہ سنت الہیہ ہے تجلی شیئا فشیئا وارد کرتے اور ہرثانی میں اول سے قوی بھیجتے ہیں تو تجلی گرم ، نہاری کے ساتھ چار سے آگے تاب نہ آئے گی اسی لئے ہر دو رکعت پر جلسہ طویلہ کا حکم ہوا کہ خوب آرام پالے، اور نبی صلی اللہ تعا علیہ وسلم کی یا دواجب ہوئی کہ لطیف جمال سے حظ (فائدہ) اٹھا لے۔
اور (فرائض کی ) پچھلی رکعتوں میں قراءت معاف کہ تجلیات بڑھتی جائیں گی شاید دشواری ہو اور منفرد پر جہر واجب نہیں کہ بوجہ تنہائی دہشت و ہیبت زیادہ ہوتی ہے عجب نہیں کہ تاب نہ لائے تو اسے اس کے حال و وقت پر چھوڑ نا مناسب ۔ رکوع و سجود میں قراءت قرآن ممنوع ہوئی کہ ان ہوئی کہ ان کی تجلی ،تجلی قیام سے سخت ا شد، دوسری تجلی شدید قراءت مل کرافراط (زیادہ ہو جائے ) ہوگی ، نیز قعود میں قراءت ممنوع ہوئی کہ وہ آرام دینے کے۔ لئے رکھا گیا تجلی قرآنی کی شدت مل کرا سے مقصود سے خالی کر دے گی اسی لئے رکوع کے بعد قومہ کا حکم ہوا کہ اس تجلی قومی سے آرام لے کر تجلی اقوی کی طرف جائے ورنہ تاب نہ لائے گا اسی بنا پر بین السجدتین ( دو سجدوں کے درمیان ) اطمینان سے بیٹھنا واجب کیا گیا کہ تجلی سجدہ ثانیہ اور اشد و اعظم ہوگی اشد براشد کی توالی ( لگا تار آنے ) سے بنیانِ بشری ( انسانی عمارت) نہ منہدم ہو جائے ۔
امام عارف باللہ عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی میزان میں نقل فرماتے ہیں” انه وقع لبعض تلامذة سيدى عبد القادر جيلى رضى الله تعالى عنه انه سحا. فصار يضمحل حتى صار قطرة ماء على وجه الأرض فاخذها سيدى عبد القادر رضى الله تعالى عنه بقطنة ودفنها في الأرض وقال سبحن الله رجع الى اصله بالتحلى علیه ”یعنی حضور پر نو رسید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض مریدوں نے سجدہ کیا جسم گھلنا شروع ہوا، یہاں تک کہ گوشت پوست ہڈی پسلی کسی شے کا نشان نہ رہا صرف ایک بوند پانی کی زمین پر پڑی رہ گئی حضور پرنور نے روئی کے پھوئے سے اٹھا کر زمین میں دفن کردی اور فرمایا سبحن اللہ تجلی کے سبب اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا ۔
(الميزان الكبری، ج 1 ،ص 157 ،مصطفى البالبی ،مصر )
سابعاً: دیدۂ انصاف بے غبار وصاف ہو تو احادیث صحیحہ سے اس کا بھی پتا چلتا ہے کہ جہاں جانا چاہے اس طرف چند قدم قریب ہونا اور جہاں سے جدائی مقصود ہو اس سے کچھ گام دور ہونا بھی نافع و کار آمد ہوتا ہے جب کمال قرب و بعد میسر نہ ہو۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ” كل شيء يتكلم به ابن آدم خانه مكتوب عليه فأذا خطأ الخطيئة ثم احب ان يتوب الى الله عز وجل فليأت بقعة مرتفعة فليمدد يديه الى الله ثم يقول اللهم أني أتوب اليك منها لا ارجع اليها ابدأ فأنه يغفر له مالم يرجع في عمله ذلك ” آدمی کا ہر بول اس پر لکھا جاتا ہے تو جو گناہ کرے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف تو بہ کرنا چاہے اسے چاہئے بلند جگہ پر جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہے الہی! میں اس گناہ سے تیری طرف رجوع لاتا ہوں ، اب کبھی اُدھر عود نہ کروں گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مغفرت فرمادے گا جب تک اس گناہ کو پھر نہ کرے۔
تو بہ کے لئے بلندی پر جانے کی یہی حکمت ہے کہ حتی الوسع موضع مصیبت سے بعد ( دوری) اور محل طاعت و منزل رحمت یعنی آسمان سے قرب حاصل ہو، جب سیدنا موسی علیہ الصلوۃ و اسلام کا زمانہ انتقال قریب آیا بن ( جنگل ) میں تشریف رکھتے تھے اور ارض مقدسہ پر جبارین کا قبضہ تھا وہاں تشریف لے جانا میسر نہ ہو ادعافرمائی کہ اس پاک زمین سے مجھے ایک سنگ پرتاب قریب کر دے۔ بخاری مسلم ، نسائی ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ” ارسل ملك الموت إلى موسى عليها الصلوة والسلام (فذكر الحديث الى ان قال نسأل الله ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر ” موسی علیہ الصلوة و السلام کی طرف اللہ تعالی نے ملک الموت کو بھیجا، پس حدیث کو بیان کرتے یہاں تک بیان کیا کہ مجھے بیت المقدس کے اتنا قریب کر دے جتنا کہ پتھر پھینکنے کا فاصلہ ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہنگام حاجت ( حاجت کے وقت ) سردست ( ہاتھوں ہاتھ ) عراق شریف کی حاضری متعذر ، لہذا چند قدم اس ارض مقدسہ کی طرف چلنا ہی مقرر ہوا کہ مالا درك كله لا يترك كله ولله الحمد دفه و جله ( جو مکمل حاصل نہ ہو سکے تو تو وہ مکمل چھوڑ ابھی نہ جائے، اللہ تعالی ہی کے لئے ہر چھوٹی اور بڑی حمد ہے ) رہی عدد یازدہ ( گیارہ کے عدد ) کی تخصیص ، اس کی وجہ ظاہر کہ” ان الله تعالى وتر يحب الوتر “( الله تعالى طاق ہے طاق کو دوست رکھتا ہے )۔
( جامع الترمذی ، ج 1 ،ص 60 ،مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ ،دہلی )
اور افضل الاوتار واول الاوتار ( سب وتروں یعنی طاق عددوں سے افضل اور : او پہلا ) ایک ہے مگر یہاں تکثیر ریہاں تکثیر مطلوب اور اس کے ساتھ تیسیر ( آسانی ) بھی ملحوظ، لہٰذا یہ (گیارہ کا ) عدد مختار ہوا کہ یہ افضل الاوتار کا پہلا ارتفاع ہے جو خود بھی وتر اور مشابہت زوج سے بھی بعید کہ سوا ایک کے اس کے لئے کوئی کسر صحیح نہیں اور اس سے ایک گھٹا دینے کے بعد بھی جو زوج حاصل ہوتا ہے زوج محض ( صرف جفت ) ہے نہ زوج الازواج کہ اس کے دونوں حصص متساویہ ( پانچ اور پانچ ) خود افراد ہیں بلکہ خلو مرتبہ پر وہ بعینہ ایک ہے۔
شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں” الشرع لم يخص عدداً الا لحكم ترجع الى اصول، الأول ان الوتر عدد مبارك لا يجاوز عنه ما كان فيه كفاية، ثم الوتر على مراتب، وتر يشبه الزوج كالتسعة والخمسة فانهما بعد اسقاط الواحد ينقمان الى زوجين والتسعة وان لم تنقسم الى عددين متساوين فانها تنقسم إلى ثلثه متساوية وامام الاوتار الواحد وحيث اقتضت الحكمة ان يؤمر بأكثر منها اختار عدداً يحصل بالترفع كالواحد يترفع الى احد عشراه ملتقطا ” ترجمہ: شرع شریف میں عدد کی تخصیص صرف ایسے حکم کے لئے کی جاتی جو کئی معانی کی طرف راجع ہوتا ہے اول، یہ یوتر ایسا مبارک عدد ہے کہ اس سے تجاوز اس وقت تک نہیں کیا جاےگاجبکہ اس وتر میں کفایت موجود ہے پھر وتر کے کئی اقسام ہیں، ایک وتر زوج کے مشابہ ہوتا ہے جیسا کہ نو اور پانچ کا عدد کہ یہ دونوں ایسے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک ایک کو سا قط کر دیا جائے تو یہ دونوں برابر تقسیم ہو کر دو زوج بن جاتے ہیں، اور نو کا عدد خود اگرچہ دو جفت ( زوج) پرتقسیم نہیں ہوتا مگر تین مساوی عددوں پر منقسم ہوتا ہے، تمام وتروں کا امام ( اصل ) ایک کا عدد ہے اور حکمت کا تقاضا ہو تو زیادہ عدد کاتب حکم ہوتا کہ دو عدد بڑھ کر واحد کی طرح ہو جائے مثلاً گیارہ ہو جائے ۔
(حجۃ البالغہ،ج1،ص 100 ،مطبوعہالمکتبۃ السلفیہ ،لاہور )
بالجملہ اس نماز مقدس میں اصلاً کوئی محذور شرعی نہیں ، اور خود کون سا طریقہ دیانت و انصاف ہے کہ جو امر حضور پر نورمحی الملۃمقیم السنۃملاذالعلماءمعاذ العرفاء وارث الانبیاء ولی الله منبع الارشاد مرجع الافراد امام الائمہ مالک الازمہ کاشف الغمہ ملجالامہ قطب الا علم غوثناالاعظم رضی اللہ تعالی عنہ وارضاهءو جعل حرزنا في الدارين رضاه (الله تعالی ان کی رضا کو دونوں جہان میں ہماری جان کا موتی بنائے) ارشادفرما ئیں اور حضور کے اصحاب اکا بر انجاب قدست اسرار هم و تممت انوار هم (ان کے اسراء مقدس اور ان کے انوار تام کئے جائیں) کہ بالیقین اعاظم علماء واجلہ کملا تھے اسے بجالا ئیں اور طبقۃ فطبقۃ اولیاء وعلمائے سلسلہ عالیہ قادر یہ روح ارواح اصحابها واروى قلوبنا بناهل عبابها ( الله تعالی ان کی ارواح کو معطر فرمائے اور ہمارے دلوں کو ان کے جاری چشموں سے سیراب فرمائے) اسے اپنا معمول بنا ئیں اور ثقات علماء و کبار اولیاء اپنی تصانیف میں اسے نقل روایت کریں
اجازتیں دیں اجازتیں لیں اور منکرین مکابرین کو اصلا قدرت نہ ہو کہ آیت و حدیث تو بڑی چیز ہے کہیں دو چار عمائید دین وفقہائے معتمدین ہی سے اس کا رد و انکار بے اعانت کذب و اختلاق و مکابرہ و شقاق ثابت کر سکیں ایسی جمیل چیز جلیل عزیز کو محض اپنی ہوائے نفسانی و اصول بہتانی کی بنا پر بلحاظ اصل مذہب (اپنے اصل مذہب کی بناء پر ) شرک قطعی اور فاعلوں ( کرنے والوں ) مجوزوں ( جائز کہنے والوں) کو معاذ اللہ مشرک جہنمی اور بخوف اہل حق ( اہل حق کے خوف سے ) تسہیل امر کو معاملے کو آسان کرنے کے لئے ) ہارے جی سے صرف فاسق بدعتی بتائیے اور انکار ارشاد سید الاولیاء ( اولیاء کے سردار کے فرمان کے انکار ) و تضلیل و تفسیق علما و عرفا ( علماء و عرفاء کو گمراہ اور فاسق بنانے ) کا وبال عظیم گردن پر اٹھائیے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 605 تا 619

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 574
مزید پڑھیں:صلوۃ غوثیہ صحابہ کرام سے منقول نہیں
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top