:سوال
روحیں نہیں مرتی تو پھر موت کا کیا مطلب ہے؟
:جواب
موت صرف ایک مکان سے دوسرے مکان میں چلا جاتا ہے نہ کہ معاذ اللہ جماد ہو جانا۔ ابو نعیم حلیہ میں بلال بن سعد رحمہ اللہ تعالی علیہ سے راوی کہ اپنے وعظ میں فرماتے
يا اهل الخلوت يا اهل البقاء انكم لم تخلفوا للفناء وانما خلقتم للخلوت والابداو لكنكم تتقلون من دارالی دار
اے ہمیشگی والو! اے بقا والو تم فنا کو نہ بنے بلکہ دوام و ہمیشگی کے لیے بنے ہو، ہاں ایک گھر سے دوسرے گھر میں چلے جاتے ہو۔
( شرح الصدور، ص 85، خلافت اکیڈمی منگورہ، سوات )
مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرمایا “
لا فرق لهم في الحالين ولذا قيل اولياء الله لا يموتون ولكن تنتقلون من دار الی دار “
اولیاء کی دونوں حالت حیات و ممات میں اصلا فرق نہیں ، اسی لیے کہا گیا کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔
(مرقاۃ شرح مشکوة ، ج 3 ، ص 241 ، مکتبہ امدادیہ ملتان)
مزید پڑھیں:روحیں نہیں مرتی تو پھر موت کا کیا مطلب ہے؟
امام عارف باللہ استاذ ابوالقاسم قشیری قدس سرہ اپنے رسالہ میں بسند خود حضرت ولی مشہور سید نا ابوسعید خراز قدس سرہ المتاز سے راوی کہ میں مکہ معظمہ میں تھا، باب بنی شیبہ پر ایک جوان مردہ پڑا پایا ، جب میں نے اس کی طرف نظر کی، مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا
یا ابا سعید اما علمت ان الاحباء احياء و ان ماتوا و انما ينقلون من دار الى دار
اے ابوسعید ! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کےپیارے زندہ ہیں اگر چہ مر جائیں، وہ تو یہی ایک گھر سے دوسرے گھر میں بلائے جاتے ہیں۔
الرسالة القشیریہ ص 40 مصطفی البابی مصر
و ہی عالی جناب حضرت سیدی ابو علی قدس سرہ سے راوی، میں نے ایک فقیر کو قبر میں اتارا، جب کفن کھولا اور ان کا سر خاک پر رکھ دیا کہ اللہ ان کی غربت پر رحم کرے، فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا یا ابا على أتذلني بین یدی و من دللنی “ اے ابو علی ! مجھے اس کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو میرے ناز اٹھاتا ہے۔ میں نے عرض کی: اے سردار میرے! کیا موت کے بعد زندگی؟ فرمایا
بل اناحی و کل محب الله حي لا يضرنك بجاهى غدا یا روذباری“
مزید پڑھیں:میت والے گھر ایک قبیح رسم کا حکم
میں زندہ ہوں اور خدا کا ہر پیارا زندہ ہے بیشک وہ وجاہت و عزت جو روز قیامت میں ملے گی اس سے تجھے کوئی ضرر نہ پہنچے گا بلکہ میں تیری مدد کروں گا اے روز باری۔
الرسالة القشيرية ص 140 مصطفى البابی مصر )
و ہی جناب مستطاب حضرت ابراہیم بن شیبان قدس سرہ سے راوی، میرا ایک مرید جوان مر گیا، مجھے سخت صدمہ ہوا، نہلانے بیٹھا، گھبراہٹ میں بائیں طرف سے ابتداء کی، جوان نے وہ کروٹ ہٹا کر اپنی داہنی کروٹ میری طرف کی، میں نے کہا: جان پدر! تو سچا ہے مجھ سے غلطی ہوئی۔
و ہی امام حضرت ابو یعقوب سوسی نہر جوری قدس سرہ سے راوی، میں نے ایک مرید کو نہلانے کے لیے تختے پر لٹایا اس نے میر انگوٹھا پکڑ لیا میں نے کہا: جان پدر! میں جانتا ہوں کہ تو مردہ نہیں یہ تو صرف مکان بدلنا ہے، اس لئے میرا ہاتھ چھوڑ دے۔
(الرسالة القشيرية ، ص 170 مصطفی البابی مصر )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 744