:سوال
خطبہ جمعہ شرعا تذکیر وعظ و نصیحت ) کے لئے رکھا گیا ہے، لہذا جو خطبہ دے رہا ہے اس کا سجھنا بھی ضروری ہونا چاہیے؟
:جواب
خطبہ جمعہ کا ذکر تذکیر کے لئے مشروع ہونا كما قال تعالى فاسعوا الى ذكر الله ) ( جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس اللہ کے ذکر کی طرف جلدی چلو ہرگز اس دعوی کا مثبت نہیں ہو سکتا جب الفاظ الفاظ ذکر ہیں اور اس نے بالقصد انھیں ادا کیا قطعاذ کر متحقق ہوا، تدبر معنی پر توقف نہیں ورنہ واجب کہ نماز میں بھی فہم معنی (ضروری ہو ) قال تعالیٰ واقم الصلوة لذكرى (اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو)۔ علاوہ بریں تذکیر ( نصیحت کرنے) سے تذکر ( نصیحت حاصل کرنا ) زیادہ محتاج فہم و تدبر ۔۔۔ حالانکہ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مقتدی اگر بہرے یا سوتے یا اس قدر دور ہوں کہ آواز نہ جائے مگر وقت خطبہ حاضر ہوں کافی ہے شرط ادا ہوگئی فہم معنی جدا نفس سماع کی بھی ضرورت نہیں۔
مزید پڑھیں:جمعہ کے بعد احتیاطا ظہر کے چار فرض پڑھنا کیسا؟
اقول وبالله التوفيق : حقیقت امر یہ ہے کہ ہر چند احکام شرعیہ عموماً حکم و مصالح سے ناشی ہوتے ہیں اور مشروعیت خطبہ کی حکمت یہی تذکیر و تذکر ہے مگر حکمت مدار حکم نہیں ہوتی کہ اُس کے فقدان سے فساد و بطلان لازم آئے مثلاً شرع نکاح کی حکمت تکثیر امت اور نفس کی عفت کہ مرد عنین وزن رتقا وقرنا میں دونوں اور بحالت عقم اول منتفی مگر پھر بھی صحت نکاح میں شہہ نہیں۔ صوم کی حکمت کسر شہوت اور نفس کی ریاضت، پھر اگر کسی شخص کے مزاج پر رطوبت غالب اور اس کی وجہ سے شہوتین میں ضعف ہو کہ روزہ اُسے نافع و موجب قوت پڑے تو کیا اُسے روزے کا حکم دیں گے یا اُس کے صوم کو فاسد مانیں گے وقس علی هذا (اور اس پر قیاس کر ) ۔
مزید پڑھیں:جماعت جمعہ میں کم از کم کتنے آدمی ہونے چاہئیں؟
یہ سب کلام اس تقدیر پر ہے کہ عبارت مذکورہ سوال کا وہ مطلب ہو، یہ فتاوی فقیر کی نظر سے نہ گزرا کہ سیاق و سباق دیکھ کر تعین مراد کی جاتی مگر جتنے لفظ سائل نے نقل کے فقیر غفراللہ تعالی لہ کی رائے میں ان کی عمدہ توجیہ یوں ممکن کہ نیت نام قصد قلبی کا ہے اور قصد شے اس سے علم پر موقوف ، آدمی جس چیز کو جانتاہی نہ ہو اس کا قصد محض بے معنی، اور کسی شے کا جانا اسے نہیں کہتے کہ صرف اس کا نام معلوم ہو جس کے معنی ومراد سے ذہن بالکل خالی ہو بلکہ اس کے مفہوم سے آگاہی ضروری ہے مثلاً طوطے کو زید کا نام سکھا دیں تو یہ نہ کہیں گے کہ وہ زید کو جانتا ہے، اسی لئے علماء فرماتے ہیں اگر کوئی شخص نماز فرض میں فرض کی نیت تو کرے مگر یہ نہ جانے کہ فرض کے کہتے ہیں نماز نہ ہوگی کہ صلوة فریضہ میں بیت فرض بھی ضروری تھی جب وہ معنی فرض سے غافل ہے تو لفظ فرض کا خیال ہوا نہ نیت فرض کہ فرض تھی۔ جب یہ واضح ہو لیا اور معلوم ہے کہ صحت خطبہ کے لئے نیت خطبہ شرط ہے یہاں تک کہ اگر منبر پر جا کر چھینک آئی اور چھینک پر الحمد اللہ کہا خطبہ ادانہ ہوا۔۔۔
مزید پڑھیں:جس بستی کے لوگ وہاں کی مسجد میں نہ سماویں وہاں جمعہ جائز ہے
تو لازم ہوا کہ خطیب معنی خطبہ سے آگاہ ہو یعنی یہ جانتا ہو کہ خطبہ ایک ذکر الہی کا نام ہے تا کہ اس کی نیت کر سکے ورنہ نام خطبہ جانا بھی اور یہ نہ جانا کہ خطبہ کے کہتے ہیں بلکہ لوگوں کے دیکھا دیکھی بے سمجھے ایک فعل کر دیا تو بیشک نماز جمعہ ادانہ ہوگی کہ یہ وہی نام خطبہ کا خیال ہوا نہ نیت خطبہ۔ اور جب نیت نہ ہوئی کہ شرط صحت خطبہ تھی خطبہ نہ ہوا، اور جب خطبہ نہ ہوا کہ شرط صحت جمعہ تھا جمعہ نہ ہوا جس طرح کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھ کر خود بھی ان کے سے افعال کرے اور معنی نماز سے جاہل ہو یعنی نہ جانے کہ نماز خدا کا ایک فرض ہے کہ بغرض انتشال امر ادا کیا جاتا ہے ہر گز نماز نہ ہوگی۔ یہ معنی ہیں معنی خطبہ نہ جانے کے، نہ یہ کہ جو عبارت پڑھے اس کا ترجمہ سمجھنا ضروری ہے، یہ کسی کا بھی مذہب نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 282 تا 288