دیہات جہاں مدت سے جمعہ قائم ہو، اس کا کیا حکم ہے؟
:سوال
ہمارا علاقہ شہر نہیں کہلا تا مگر وہاں مدت سے جمعہ ہوتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
:جواب
اگر وہ پرگنہ ہے اس کے متعلق دیہات ہیں اور ایسی حالت میں ضرور جانب سلطنت سے کوئی حاکم وہاں فصل خصومات و فیصلہ مقدمات کے لئے ہوتا ہے مثلاً تحصیلدار وغیرہ جب تو وہ شہر ہے اور اس میں ادائے جمعہ وعید ین ضرور لازم ، اور ان کا تارک گنہگار و آثم ۔ اور اگر وہ پر گنہ نہیں یا وہاں کوئی حاکم فصل مقدمات پر مقرر نہیں مگر زمانہ سلطنت اسلام میں وہ ایسا تھا اور جب سے اس میں جمعہ ہوتا تھا تو اب بھی پڑھا جائے گا۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں نہیں تو مذہب حقی میں وہاں جمعہ وعیدین نہیں پھر بھی جبکہ مدت سے قائم ہے اسے اکھاڑا نہ جائے گا، نہ لوگوں کو اس سے روکے گا مگر شہرت طلب ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(ارایت الذي ينهى عبدا اذا صلی ) ترجمہ: بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے بندے کو جب وہ نماز پڑھے۔
(پ 30 سورة العلق ، آیت 10-9)
وفيه عن امير المؤمنين على كرم اللہ وجھہ ، ترجمہ: اور اسی آیت کے تحت حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ایک روایت ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 442

مزید پڑھیں:جمعہ کو نفل بنانا منع نہیں
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 745 to 747

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top