:سوال
اگر کوئی شخص مرے اور اس کے گھر والے چہلم وغیرہ کا کھانا پکا ئیں، اور نظیرو غنی، برادری اور غیر برادری سب کو کھلا ئیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟
:جواب
عرف پر نظر شاہد ( لوگوں سے معمول پر نظر ڈالنا اس بات کا گواہ ہے )کہ چہلم وغیرہ کے کھانے پکانے سے لوگوں کا اصل مقصود میت کو ثواب پہنچانا ہوتا ہے، اسی فرض سے فعل کرتے ہیں، والہذا اسے فاتحہ کا کھانا چہلم کی فاتحہ وغیرہ کہتے ہیں ، شاہ عبد العزیز صاحب تفسیر فتح العزیز میں فرماتے ہیں وارد ہے کہ مردہ اس حالت میں کسی ڈوبنے والے کی طرح فریادرسی کا منتظر ہوتا ہے اور اس وقت میں صدقے ، دعا ئیں اور فاتحہ اسے بہت کام آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگ مرنے سے ایک سال تک خصوصاً چالیس دن تک اس طرح مدد پہنچانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔“
( تفسیر عزیزی، ص 602 مسلم بک ڈپو، دہلی)
اور شک نہیں کہ اس نیت سے جو کھانا پکایا جائے مستحسن ہے اور عند التحقیق صرف فقراء ہی پر تصدق میں ثواب نہیں بلکہ اغنیاء پر بھی مورث ثواب ( باعث ثواب) ہے، حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں ((في كل ذات كبد رطبة . اجر) ہر گرم جگر میں ثواب ہے، یعنی جو زندہ کو کھانا کھلائے گا، پانی پلائے گا ثواب پائے گا۔
(سنن ابن ماجہ ص 270 ایچ ایم سید کمپنی کراچی)
مزید پڑھیں:اگر قبر پر کوئی شخص جائے تو اس کا علم میت کو ہوتا ہے؟
حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ( فيما يأكل ابن آدم اجر وفيما يأكل السبع او الطير اجر )) جو کچھ آدمی کھا جائے اس میں ثواب ہے اور جو درندہ کھا جائے اس میں ثواب ہے جو پرند کو پہنچے اس میں ثواب ہے۔
(مستدرک علی الصحیحسین ، ج 4، ص 133، دار الفکر، بیروت )
رد المحتار میں ہے صرح في الذخيرة فيها ولو على غنى لان المقصود فيها الفقير ذخیرہ میں صراحت ہے کہ غنی پر صدقہ کرنا ایک طرح کی قربت ہے جس کا درجہ فقیر پر تصدیق کی قربت سے کم ہے۔ اور مدار کار نیت پر ہے انما الاعمال بالنیات تو جو کھانا فاتحہ کے لیے پکایا گیا ہے بلاتے وقت اسے بلفظ دعوت تعبیر کرتا اس نیت کو باطل نہ کرے گا، جیسے کسی نے اپنے محتاج بھائی بھتیجوں کوعید کے کچھ رو پیہ دل میں زکوۃ کی نیت اور زبان سے عیدی کا نام کر کے دیتے تو زکوۃ ادا ہو جائے گی، عیدی کہنے سے وہ نیت باطل نہ ہوگی۔
معہذا ( اس کے ساتھ ساتھ) اپنے قریبوں عزیزوں کے مواسات بھی صلہ رحم و موجب ثواب ہے، اگر چہ وہ اغنیاء ہوں۔۔ اور آدمی جس امر پر خود ثواب پائے وہ کوئی فعل ہو اس کا ثواب میت کو پہنچا سکتا ہے۔ کچھ خاص تصدق ہی کی تخصیص نہیں ۔۔ یوں بھی اس نیت محمود میں کچھ خلل نہیں اگر چہ افضل وہی تھا کہ صرف فقراء پر تصدیق کرتے کہ جب مقصود ایصال ثواب تو و ہی کام مناسب تر جس میں ثو اب اکثر و وافر ، پھر بھی اصل مقصود مفقود نہیں ، جبکہ نیت ثواب پہنچانا ہے۔ ہاں جسے یہ مقصود ہی نہ ہو بلکہ دعوت و مہمان داری کی نیت سے پکائے ، جیسے شادیوں کا کھانا پکاتے ہیں تو اسے بے شک ثواب سے کچھ علاقہ نہیں،
مزید پڑھیں:میت والے گھر ایک قبیح رسم کا حکم
نہ ایسی دعوت شرع میں پسند نہ اس کا قبول کرنا چاہئے کہ ایسی دعوتوں کا محل شادیاں ہیں نہ کہ غمی ۔ والہذا علماء فرماتے ہیں کہ یہ بدعت سیئہ ( بری بدعت ) ہے، جس طرح میت کے یہاں روزموت سے عورتیں جمع ہوتی ہیں اور ان کے کھانے دانے، پان چھالیا کا اہتمام میت والوں کو کرنا پڑتا ہے، وہ کھانا فاتحہ و ایصال ثواب کا نہیں ہوتا بلکہ وہی دعوت و مہمان داری ہے کہ غمی میں جس کی اجازت نہیں۔ یوں ہی چہلم یا بری یا ششماہی پر کھانا بے نیت ایصال ثواب محض ایک رسمی طور پر پکاتے اور شادیوں کی بھاجی کی طرح برادری میں بانٹتے ہیں، وہ بھی بے اصل ہے، جس سے احتراز چاہئے۔
خصوصاً جب اس کے ساتھ ریاء وتفاخر مقصود ہو کہ جب تو اس فعل کی حرمت میں اصلاً کلام نہیں۔ اور حدیث صحیح میں ہے ( ( نھی رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن طعام المتباريين ان يوكل )) یعنی جو کھانے تفاخر وریاء کے لیے پکائے جاتے ہیں ان کے کھانے سے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
المستدرک علی الصحیحسین ، ج 4، ص 129، دار الفکر، بیروت)
مگر بے دلیل واضح کسی مسلمان کا یہ سمجھ لینا کہ یہ کام اس نے تفاخر و ناموری کے لیے کیا ہے جائز نہیں کہ قلب کا حال اللہ تعالی جانتا ہے اور مسلمان پر بدگمانی حرام۔ هذا هو بحمد الله القول الوسط لا وكس فيه ولا شطط وان خالف من فرط في الباب و افرط ترجمہ: یہ بحمد اللہ درمیانی قول ہے جس میں نہ کمی ہے نہ زیادتی ، اگر چہ اس باب میں تفریط اور افراط کرنے والوں کے خلاف ہو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 668 تا 672