: سوال
اہل قبور اپنی قبر پر آنے والوں کو پہچانتے ہیں، ان کا سلام سنتے اور جواب دیتے ہیں، اس بارے میں کچھ روایات بیان فرد یجئے۔
:جواب
حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
(ما من احد يمر بقبراخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه الاعرفه ورد علیہ السلام)
جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر پر گزرتا اور اسے سلام کرتا ہے اگر وہ اسے دنیا میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا اور جواب سلام دیتا ہے۔
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
(اذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه واذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام )
جب آدمی ایسی قبر پر گزرتا ہے جس سے دنیا میں شناسائی تھی اور اسے سلام کرتا ہے میت جواب سلام دیتا اور اسے پہچانتا ہے، اور جب ایسی قبر پر گزرتا جس سے جان پہچان نہ تھی اور سلام کرتا ہے میت اسے جواب سلام دیتا ہے۔
(شعب الایمان ، ج 7 ص 17 ، دار الكتب العلمية ، بیروت)
مزید پڑھیں:کیا مردے سنتے ہیں یا نہیں؟
حضور سید عالم صلی اللہ علی علیہ وسلم مصعب بن عمیر اور ان کے ساتھیوں کے قبور پر ٹھہرے اور فرمایا (والذی نفسی بیدہ لا يسلم عليهم احد الاردوا إلى يوم القيمة)) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت تک جوان پر سلام کرے گا جواب دیں گے۔
(شرح الصدور بحوالہ المعجم الاوسط ص 84 خلافت اکیڈمی سوات )
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم زیارت شہدائے احد کو تشریف لے گئے اور عرض کی
(الهم ان عبدك ونبيك يشهد ان هؤلاء شهداء وانه من زارهم أوسلم عليهم إلى يوم القيمة ردوا عليه)
الہی ! تیرا بندہ اور تیرا نبی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہید ہیں اور قیامت تک جو ان کی زیارت کو آئے گا اور ان پر سلام کرے گا یہ جواب دیں گے۔
(المستدرک للحاکم ، ج 3 ص 29، دار الفکر، بیروت)
مزید پڑھیں:روح کے لیے قرآن و حدیث سے کون سی چیزیں ثابت ہیں؟
امام بیہقی نے ہاشم بن محمد عمری سے روایت کی: مجھے میرے باپ مدینہ سے زیارت قبور احد کو لے گئے، جمعہ کا روز تھا، صبح ہو چکی تھی ، آفتاب نہ نکلا تھا، میں اپنے باپ کے پیچھے تھا، جب مقابر کے پاس پہنچے انھوں نے بآواز کہا ” سلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبی الدار “ جواب آیا وعلیکم السلام یا ابا عبد الله ۔ باپ نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور کہا کہ اے میرے بیٹے ! تو نے جواب دیا ؟ میں نے کہا: نہ۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی داہنی طرف کر لیا اور کلام مذکور کا اعادہ کیا، دوبارہ ویسا ہی جواب ملا، سہ بارہ کیا پھر وہی جواب ہوا۔ میرے باپ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر میں گر پڑے۔
“ دلائل النبوة، ج 3، ص 309 ، دار الكتب العربية، بیروت)
ابن ابی الدنیا اور بہتی دلائل میں انھیں عطاف مخزومی کی خالہ سے راوی ایک دن میں نے قبر سید نا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس نماز پڑھی ، اس وقت جنگل بھر میں کسی آدمی کا نام ونشان نہ تھا۔ بعد نماز مزار مطہر پر سلام کیا۔
جواب آیا اور اس کے ساتھ یہ فرمایا ”
من يخرج من تحت القبر اعرفه كما اعرف ان الله خلقني و كما اعرف الليل والنهار
“ جو میری قبر کے نیچے سے گزرتا ہے میں اسے پہچانتا ہوں جیسا یہ پہچانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس طرح رات اور دن کو پہچانتا ہوں ۔
( دلائل النبوةا ، ج 3 ص309 دار اكتب العربیة بیروت)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 719 تا 724