_ظہر کا مستحب وقت موسم گرما میں کیا ہے؟
سوال
ظہر کا وقت مستحب گرما میں کیا ہے اور جو شخص موسم مذکور میں اول وقت میں نماز ظہر پڑھے اور لوگوں کو بھی تاکید کرے کہ وقت اولی یہی ہے، آیا وہ شخص حق پر ہے یا نا حق پر؟
جواب
موسم گرما میں ظہر کا ابرار (ٹھنڈا) کر کے پڑھنا مستحب ہے تمام کتب حنفیہ میں یہ معنی مصرح ہے( یعنی اس کی تصریح کی گئی ہے ) اور اول وقت میں پڑھنا رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم کے حکم اقدس سے عدول ۔
حضور فرماتے ہیں
اذا اشتد الحر فابردوا بالظهر، فإن شدة الحر من فيه جهنم متفق عليه ”
جب گرمی سخت ہو توظہر کوٹھنڈا کرو کہ شدت گرمی وسعت دم دوزخ سے ہے،
یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔
اور بخاری و نسائی انس رضی اللہ تعالی نے راوی
واللفظ للنسائي قال كان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم إذا كان الحرابرد الصلاة واذا كان البرد عجل “
رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ سلم جب گرمی ہوتی تو نماز ٹھنڈی کرتے اور جب سردی ہوتی تعجیل فرماتے۔
اور بخاری مسلم ابو داود ابن ماجہ نے سید نا ابی ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،
قال اذن مؤذن النبي صلى الله تعالیٰ علیہ وسلم الظهر
یعنی مؤذن نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اذان ظہر دی ۔
فقال ابرد برد او قال انتظر انتظر وقال شدة الحرص فيه جهنم فاذا اشتد الحر فا بردوا عن الصلاة حتى راينا في التلول ”
رسول اللہ صلی الہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ٹھنڈا کر ٹھنڈا کر ، یا فر مایا انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا سختی گرما جہنم کی وسعت نفس سے ہے تو جب گرمی زائد ہو نماز ٹھنڈی کرو، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا ٹیلوں کا سایہ۔
اور مسلم میں ۔۔ مؤذن کا تین ( دفعہ ) ارادہ ( کرنا ) اور حضور کا یہی فرمانا وارد ہوا ۔ اقول ( میں کہتا ہوں ) اب یہاں سے مبالغہ تاخیر کا اندازہ کرنا چاہئے کہ مؤذن نے تین بار اذان کا ارادہ کیا اور ہر دفعہ ابراد ( ٹھنڈا کرنے ) کا حکم ہوا اور یقیناً معلوم ہے کہ ہر دوا ارادوں میں اس قدر فاصلہ ضرور تھا جس کو ابراد کہ سکیں اور وہ وقت بہ نسبت پہلے وقت کے ٹھنڈا ہو ورنہ لازم آئے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تعمیل حکم نہ کی اور جب اذان میں یہ تاخیر ہوئی تو نماز تو اور بھی دیر میں ہوئی ہوگی ۔
READ MORE  مقتدی کو آخری رکعت کے قعدہ میں کیا پڑھنا چاہئیے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top