_فجر کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے
سوال
فجر کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے اور جو شخص نہایت اندھیرے میں اول وقت نماز فجر پڑھے اور لوگوں کو اسی وقت پڑھنے کی تاکید کرے اور کہے بعد روشنی کے نماز مکروہ ہوتی ہے وہ شخص سچا ہے یا نہیں اور وہ نماز اُس کی مستحب وقت پر ہوئی یا نہیں، اور مستحب وقت اس نماز کا کیا ہے؟
جواب
وقت نماز فجر کا طلوع یا انتشار صبح صادق سے ہے علی اختلاف المشائخ اور انتہا اس کی طلوع اول کنارہ شمس ( سورج کے اول کنارہ کے طلوع کے وقت ) ہے۔
اور ہمارے علماء کے نزدیک مردوں کو دواماً ہر زمان و ہر مکان میں اسفار فجر یعنی جب صبح خوب روشن ہو جائے نماز پڑھنا سنت ہے سو یوم النحر کے کہ حجاج کو اُس روز مزدلفہ میں تغلیس ( اندھیرے میں نماز فجر پڑھنی )چاہئے ،
صرح به في عامةكتبهم
(فقہا کی عامہ کتب میں اس بات کی تصریح ہے ) اس میں احادیث صریحہ معتبرہ وارد ( ہیں ) ، ترمذی ابوداو دو نسائی داری ابن حبان طبرانی حضرت رافع بن خدیج سے راوی کہ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں
اسفروا بالفجر فانه اعظم للاجر
(یعنی فجر کو خوب روشن کرو کہ اسفار میں اجر زیادہ ہے
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اور طبرانی و ابن عدی نے انہی صحابی سے روایت کیا
” قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم لبلال يا بلال انادبصلاة الصبح حتى يبصر القوم مواقع نبلهم من الاسفار ”
رسول الله صل الله تعالی علیہ سلم نے بلال سے ارشاد فرمایا: اے بلال فجر کی اذان اس وقت دیا کرو جب لوگ اپنے تیر گرنے کی جگہیں دیکھ لیں بسبب روشنی کے۔
اور پر ظاہر کہ یہ بات اس وقت حاصل ہو گی جب صبح خوب روشن ہو جائے گی اور جب اذان ایسے وقت ہوگی تو نماز اس سے بھی زیادہ روشنی میں ہوگی۔
ابن خزیمہ اپنی صیح اورامام طحاوی شرح معانی الاثار میں بسند صحیح حضرت ابراہیم حنفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں
” ما اجتمع اصحاب رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم على شيء كما اجتمعوا على التنوير اصحاب
رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایسا کسی بات پر اتفاق نہ کیا جیسا تنویر واسفار ( فجر کو روشنی میں ادا کرنے ) پر ۔
حدیث صحیحین سے ثابت کہ نماز فجر اول وقت پڑھنا سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عادت شریفہ کے خلاف تھا
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے مزدلفہ میں حضور کے مغرب کو بوقت عشا اور فجر کو اول وقت پڑھنے کی نسبت فرمایا
” ان ھانیںالصلاتين حولنا عن وقتيها في هذا المكان “
(یعنی یہ دونوں نمازیں اپنے وقت سے پھیر دی گئیں اس مکان میں )
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ اس حدیث کے راوی ہیں حضر و سفر میں ملازمت والا سے مشرف رہتے یہاں تک کہ لوگ انہیں اہل بیت نبوت سے گمان کرتے اور ان کے لئے استیذان (اجازت چاہنا) معاف تھا كل ذلك ثابت بالا حادیث ( یہ سب احادیث سے ثابت ہے ) تو اُن کا یہ فرمانا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللّہ تعالی علیہ وسلم کونہ دیکھا کہ کسی نماز کو غیر وقت پر پڑھاہو سوا ان دو نمازوں کے ، اس مضمون کا مو کدومؤید ہے۔
اور حکمت فقہی اس باب میں یہ ہے کہ اسفار میں تکثیر جماعت ہے جو شارع کو مطلوب و محبوب اور تعلیس (اندھیرے)میں تقلیل اور لوگوں کو مشقت میں ڈالنا اور یہ دونوں ناپسند و مکروہ، اسی لئے امام کو تخفیف صلاة (هماز کو مختصر پڑھانے) اور کبیر وضعیف و مریض حاجتمند کی مراعات ( رعایت کرنے ) کا حکم فرمایا، سید نا عاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت میں قرآت طویل پڑھی لوگ شاکی ہوئے ، ارشاد ہوا یا معادا افنان انت؟ با معاذا افتان انت؟ قاله ثلثاً ” ترجمہ اے معاذا کیا تم لوگوں کو آ زمائش میں ڈالنا چاہتے ہو ؟ یہ بات آ پ نے تین دفعہ کہی
اور اول وقت کی نماز کی افضیلت اگر مطلقاً تسلیم کربھی لی جائے تا ہم دفع مفاسد(مفاسد دور کر نا) جلب مصالح (مصالح کو کرنے) سے اہم واقدم ہے آ خر نہ دیکھا کہ تطویل قرآت پر عتاب ہوا حالانکہ قرآن جس قدر بھی پڑھا جائے احسن و افضل ہی ہے
مع ہذا (اس کے ساتھ ساتھ ) نماز فجر کے بعد تا با شراق ذکر الہی میں بیٹھا رہنا مستحب ہے اور یہ امر اسفار میں آسان اور تفلیس کے ساتھ دشوار ۔
اب رہا یہ کہ حد اسفار کی کیا ہے، بدائع وسراج وہاج سے ثابت کہ وقت فجر کے دو حصے کئے جائیں حصہ اول تفلیس اور آخر میں اسفار ہے ۔
اور امام حلوائی و قاضی امام ابوعلی نسلی وغیر ہم عامہ مشائخ فرماتے ہیں کہ
ایسے وقت شروع کرے کہ نماز بقرأت مسنونہ ترتیل واطمینان کے ساتھ پڑھ لے بعدہ (نماز کے بعد ) نسیان حدث ( حدث کو بھولنے ) پر متنبه (خبردار ) ہو تو وضو کر کے پھر اسی طرح پڑھ سکے اور ہنوز (ابھی تک ) آفتاب طلوع نہ کرے ، بعض کہتے ہیں کہ نہایت تاخیرچاہئے کہ فساد موہوم ہے اور اسفار مستحب مستحب کو موہوم کے لئے نہ چھوڑیں گے۔
مگرایسے وقت تک تاخیر کہ طلوع کا اندیشہ ہو جائے بالا جماع مکروہ۔
اُس شخص کا اول وقت اندھیرے میں نماز پڑھنا سنت کی مخالفت کرنا ہے اور ان کو اس کی تاکید کرنی مخالف سنت کی طرف بلانا ہے اور یہ کہنا کہ روشنی میں نماز مکروہ ہوتی ہے سنت کو مکروہ کہنا اور شریعت مطہرہ پر بہتان اٹھانا ہے۔
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 05, Fatwa 345

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top