:سوال
زکوۃ کن مصارف میں دینا جائز ہے؟
:جواب
مصرف زکوۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب فارغ عن الحوائج الاصليه ( حاجت اصلیہ سے زائد ) پر دسترس ( قابو ) نہیں بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو، نہ اپنا شوہر نہ اپنی عورت اگر چہ طلاق مغلظہ دے دی ہو جب تک عدت سے باہر نہ آئے، نہ وہ اپنی اولاد میں ہے جیسے بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسانواسی، نہ کہ جن کی اولاد میں یہ ہے جیسے ماں باپ، دادا دادی، نانانانی، اگر چہ یہ اصلی و فرعی رشتے عیاذاباللہ بذریعہ زناہوں ، نہ اپنایا ان پانچ ان قسم میں کسی کا ملوک اگر چہ مکاتب ہو، نہ کسی غنی کا غلام غیر کا تب، نہ مردغنی کا نا بالغ بچہ، نہ ہاشمی کا آزاد بندہ، اور مسلمان حاجتمند کہنے سے کا فروغنی پہلے ہی خارج ہو چکے۔ یہ سولہ شخص ہیں جنھیں زکوۃ دینی جائز نہیں ، ان کے سوا سب کو روا ( جائز ہے ) ، مثلا ہا شمیہ بلکہ فاطمیہ عورت کا بیٹا جبکہ باپ ہاشمی نہ ہو کہ شرع میں نسب باپ سے ہے، بعض مشہورین کہ ماں کے سیدانی ہونے سے سید بن بیٹھے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں محکم حدیث صحیح مستحق لعنت الہی ہوتے ہیں۔
اسی طرح غیر ہاشمی کا آزاد شدہ بندہ اگر چہ خود اپنا ہی ہو یا اپنے اور اپنے اصول و فروع وزوج وزوجہ و ہاشمی کے علاوہ کسی غنی کا مکاتب یا زن غنیہ کا نا بالغ بچہ اگر چہ یتیم ہو یا اپنے بہن، بھائی، چچا، پھوپھی ، ماموں، بلکہ انھیں دینے میں دونا ثواب ہے زکوۃ وصلہ رحم یا اپنی بہویا داماد یا ماں کا شوہر یا باپ کی عورت یا اپنے زوج یا زوجہ کی اولادان سولہ 16 کو بھی دینا روا جبکہ یہ سولہ اُن سولہ سے نہ ہوں از انجا کہ انھیں اُن سے مناسبت ہے جس کے باعث ممکن تھا کہ ان میں بھی عدم جواز کا وہم جاتا لہذا فقیر نے انہیں با تخصیص شمار کر دیا۔
مزید پڑھیں:صحیح مقدار ز کوۃ معلوم نہ ہو اور فرض مقدار سے کم ادا کی حکم؟
:اور نصاب مذکورہ پر دسترس نہ ہونا چند صورت کو شامل
(4) ایک یہ کہ سرے سے مال ہی نہ رکھتا ہو اسے مسکین کہتے ہیں۔ (1) دوم مال ہو مگر نصاب سے کم ، یہ فقیر ہے۔ (2) سوم نصاب بھی ہو مگر حوائج اصلیہ میں مستغرق، جیسے مدیون۔ (3) چہارم حوائج سے بھی فارغ ہو مگر اسے دسترس نہیں، جیسے ابن السبیل یعنی مسافر جس کے پاس خرچ نہ رہا تو بقدر ضرورت زکوۃ لے سکتا ہے اس سے زیادہ اسے لینا روا نہیں، یا شخص جس کا مال دوسرے پر دین مؤجل ( مقرر شده مدت تک لیے قرض ) ہے ہنوز میعاد نہ آئی ، اب اُسے کھانے پہنے کی تکلیف ہے تو میعاد آنے تک بقدر حاجت لے سکتا ہے یاوہ جس کا مدیون غائب ہے یا لے کر مکر گیا اگر چہ یہ ثبوت رکھتا ہو کہ ان سب صورتوں میں دسترس نہیں۔
بالجمله مدار کار حاجتمند بمعنی مذکور پر ہے، تو جو نصاب مزبور پر دسترس رکھتا ہے ہرگز زکوۃ نہیں پاسکتا اگر چہ غازی ہو یا یا طالب علم یا مفتی۔
مگر عامل زکوۃ جیسے حاکم اسلام نے ارباب اموال سے تحصیل زکوہ پر مقرر کیا وہ جب تحصیل کرے تو بحالت غنا بھی بقدر اپنے عمل کے لے سکتا ہے اگر ہاشمی نہ ہو۔
پھر دینے میں تملیک شرط ہے، جہاں یہ نہیں جیسے محتاجوں کو بطور اباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینایا میت کے کفن وفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پل ، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوۃ ادا نہ ہوگی، اگر ان میں صرف کیا چاہے تو اس کے وہی حیلے ہیں جو ماقبل میں گذرے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 109،110