سر کے تھوڑے سے حصہ کا مسح کرنے والے کے پیچھے نماز کا حکم
: سوال
جو شخص خفی ہو کرمسح میں امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کاطریقہ عمل میں لائے یعنی چند بال چھو لینے پر اکتفا کرے اُس وقت میں کہ پگڑی باندھے ہو تو اُس کی نماز کا حکم کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسی ہے؟
:جواب
صورت متفسرہ ( پوچھی گئی صورت) میں اگر یہ شخص واقعی شافعی ہوتا تاہم حنفیہ کی نماز اس کے پیچھے محض باطل تھی نہ کہ ایسے آزا د لوگ کہ کن ہی میں نہیں ۔ ہندیہ میں ہے
الاقتداء بشافعی المذهب انما يصبح اذا كان الامام يتحامي مواضع الخلاف بيان يسمح ربع راسه هكذا في النهاية والكفاية ولا يتوضا بالماء القليل الذي وقعت فيه الجنا سۃ اہ ملخصا
ہندیہ میں ہے شافعی المذہب امام کی اقتدا تب جائز ہے کہ وہ مواضع خلاف سے بچنے والا ہو مثلاً چوتھائی سر کا مسح کرے، اسی طرح نہایہ اور کفایہ میں ہے، اور اس قلیل پانی سے وضو بھی نہ کرتا ہو جس میں نجاست واقع ہوئی ہے۔
فتاوی بند یہ ج 1 ص 84 ، نورانی کتب خانہ، پشاور )
اور اس کی اپنی نماز بھی ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے طور پر تو ظاہر کہ محض باطل ہے اور ہم بلا شبہ یہی حکم دیں گے۔
فانا انما نفتي بمذهبنا وان كان مذهب غيرنا ما كان كمانص عليه في اخلاصة والاشباه وفي الدر المختار ورد المحتار وغيرها من الاسفار
ترجمہ: ہم تو اپنے مذہب کے مطابق ہی فتوی دیں گے اگر چہ غیر کا مذہب جیسا بھی ہو، یہی تصریح خلاصہ، اشباه ، در مختار اور ردالمختار وغیرہ معتبر کتب میں ہے۔
مگر یہاں اور مذاہب پر بھی خیر نہیں سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ تو ہماری ہی طرح باطل ہی فرمائیں گے کہ ان کے یہاں پورے سر کا مسح فرض ہے، یونہی سید نا امام احمد رضی اللہ تعالی عنہ کہ ان سے بھی اظہر الروایات ( سب سے زیادہ ظاہر روایت ) فرضیت استعیاب ( پورے سر کا مسح کرنا ) ہے۔
رہا مذہب سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ اس پر صحت نماز سمجھ لینا نری ہوس ہی ہوس ہے، ایک اس مسئلہ میں ان سے توافق ( مطابقت ) سہی، پھر کیا ان کے یہاں ایک ہی مسئلہ ہے، صدہا مسائل طہارت و صلوۃ خلافیہ ہیں جن پر اطلاع تام (پوری اطلاع ) اسی بذہب کے عالم متبحر کا کام خصوصاً ان بلاد میں نہ اس مذہب کے علماء نہ کتب، بھلا یوں نہ مانے تو بتائے تو کہ مذہب شافعی میں نواقض و فرائض وضو و غسل و فرائض داخلی و خارجی و مفسدات نماز بتفصيل صور و شقوق و تنقيح اقوال قديم وجديد النصوص و وجوه تصحیح و ترجیح شیخین و غیر ہم کبرائے مذہب کسی قدر ہیں اور جب نہیں بنا سکتا اور بے شک نہ بنا سکے گا تو مجہول شئ کی مراعات و
مزید پڑھیں:جو امام نماز پڑھانے پر نوکر ہے اس کی اقتداء کرنا کیسا؟
کیونکر ممکن، پھر کہاں سے اطمینان پایا کہ ان کے مذہب پر نماز صبح ہی ہوگی نہیں نہیں بلکہ بوجہ کثرت خلاف و تکثر حوادث موقعہ فی الاختلاف، عادہ کہیں نہ کہیں وقوع مخالفت ہی مظنون ۔
اور جب ایسا ہوا اور کیوں نہ ہوگا تو بیٹھے بٹھائے نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے ، ایک مذہب پر بھی نماز صحیح نہ ہوئی۔ در مختار میں ہے
لا باس بالتقليد عند الضرورة لكن بشرط ان يلتزم جميع ما يوجبه ذلك الإمام لما قدمنا ان الحكم الملفق باطل بالاجماع
ترجمہ : ضرورت کے وقت دوسرے امام کی تقلید میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ شرط ہے کہ ان تمام امور کا التزام جن کواس امام نے اس عمل کے واسطے واجب قرار دیا ہے کیونکہ ہم پہلے بیان کر چکے کہ وہ حکم جود ومذہب سے مخلوط ہو وہ بالا جماع باطل ہے۔
(در مختار ج 1 ص 62 مطبع مجتبائی ، رہلی)
غرض لا اقل ( کم از کم اس بیا کی کا اتنا حاصل کہ تین مذہب پر تو دانستہ نماز باطل کر لی چوتھے پر صحت کی خبر نہیں فانا الله وانا اليه راجعون۔
مولی تعالی جنہیں توفیق خیر رفیق فرماتا ہے وہ ہر امر میں جہاں تک اپنے مذہب کا مکر وہ لازم نہ آئے بقیہ مذاہب کا بھی لحاظ رکھتے ہیں مثلا محتاط حنفی و شافعی ہر گز مسح کل راس ( پورے سر کا مسح ) دولا (اعضائے وضو کے پے درپے دھونے ) ود لک ( ملنے رگڑنے کو )ترک نہ کریں گے کہ آخر مسنون تو ہم بھی جانتے ہیں اور امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک ان کے بغیر طہارت و نماز ہی باطل۔
تو کیا مقتضائے عقل ہے کہ سنت چھوڑے اور ایک امام دین کے نزدیک نماز ہی سے منہ موڑے ولا حول والا قوة الا بالله العلى العظيم ولهذا علمائے مذاہب اربعہ رحمہ اللہ تعالی تصریح فرماتے ہیں کہ خروج عن الخلاف ( خلاف سے نکلنا ) بالا جماع مستحب مگر بیباک لوگوں کے نزد یک سنت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی علیہ وسلم کا ترک ، اپنے امام مذہب کی مخالفت تین مذاہب حقہ پر نمازوں کا بطلان ، چوتھے پر صحت شک و جہالت، یہ سب بلائیں آسان ہیں اور بندھی ہوئی پگڑی کے بیچ ذرا سست ہو جانا دشوار ۔ اللہ عز و جل ہدایت بخشے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 403

READ MORE  نماز میں سورۃ فاتحہ اور تین یا زائد آیتوں کے بعد کہا قال رسول اللہ
مزید پڑھیں:فاسق یا قرات درست نہ ہونے والے کو امام بنانا
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top