تارک صلوۃ اور شرابی کی نماز جنازہ کا حکم؟
:سوال
ایک شخص ترک صوم و صلاۃ اور شراب پینے کا عادی تھا عیسائیوں سے میل جول رکھتا ہے اس کے مرنے کے بعد عیسا ئیوں نے نہ صرف اس کے جنازے میں شرکت کی بلکہ دفن کرنے کے بعد اسے ٹوپی اتار کر سلامی بھی دی بعض لوگوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور بعض نے اس کا ایمان مشکوک جان کر نماز جنازہ نہ پڑھی، پڑھنے اور نہ پڑھنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
: جواب
ترک صوم و صلاۃ (نماز روزه ترک کرنا ) اور شرب خمر ( شراب پینا ) گناہان کبیرہ ہیں جن کا مرتکب فاسق و فاجر اور عذاب روزخ کا مستحق ہے مگر حرام جان کر بشامت نفس کرے تو کافر نہیں پس اگر شخص مذکور نے مذہب نہ بدلا تھا صرف باغوائے شیطان ( شیطان کے ورغلانے کے سبب ) دنیا پرستان (دنیاداروں ) خدا نا ترس کی طرح ان امور کا مرتکب ہوتا اور عیسائیوں سے میل جول رکھتا تھا تو اس پر کفر کا فتوی نہیں دیا جا سکتا بلکہ جب وہ کلمہ پڑھتا اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا مسلمان ہی ٹھرائیں گے اور اس تقدیر پر اس کی تجہیز و تکفین و جنازہ کی نماز بے شک ضروری اور لازم تھی
اگر بجانہ لاتے تو گنہگار ہوتے اور نصرانیوں کا معاذ اللہ جنازے کے ساتھ ہونا یا بعد دفن ٹوپی اتارکر سلامی دیتا ان کا اپنا فعل تھا جسکے سبب مسلمان کو کافر نہیں ٹھہرا سکتے اور یہ بدگمانی کہ اگر ان کا ہم مذہب نہ ہوتا تو جنازے میں کیوں شرکت کرتے محض مردود ہے ایسے اوہام ( وہموں ) پر بنائے احکام (احکام کی بنیاد )نہیں نہ کہ معاذ اللہ معاملہ کفر واسلام جس میں انتہاء درجہ کی احتیاط لازم بلکہ اس کا عکس دوسرا گمان قوی تر ہے کہ اگر وہ اسے اپنا ہم مذہب جانتے اپنی روش پر تجہیز وتکفین کرتے مسلمانوں کو اس کا جنازہ کیوں دیتے۔ غرض اس صورت میں نماز پڑھنے والوں نے فرض خدا ادا کیا ان پر اصلا الزام نہیں الزام ان پر ہے
مزید پڑھیں:جنازہ کے ساتھ نعتیہ اشعار بلند آواز سے پڑھنا کیسا ہے؟
جو اس بنا پر ان سے معاملہ مرتدین کرنا چاہیں اور اگر بہ ثبوت شرعی ثابت ہو کہ میت عیاذ بالله تبدیل مذاہب کر کے عیسائی ہو چکا تھا تو بے شک اس کے جنازے کی نماز اور مسلمانوں کی طرح اسکی تجہیز و تکفین سب حرام قطعی تھی مگر نماز پڑھنے والے اگر اس کی نصرانیت پر مطلع نہ تھے اور بر بنائے علم سابق ( پہلے علم کے مطابق ) اسے مسلمان سمجھتے تھے نہ اس تجہیز وتکفین ونماز تک ان کے نزدیک اس شخص کا نصرانی ہو جانا ثابت ہوا تو ان افعال میں اب بھی معذ رو بے قصور ہیں کہ جب انکی دانست میں وہ مسلمان تھا ان پر یہ افعال بجالا نے بزعم خود شر عالازم تھے ہاں اگر یہ بھی اس کی عیسائیت سے خبر دار تھے پھر نماز و تجہیز و تکفین کے مرتکب ہوئے قطعا سخت گنہگار اور وبال کبیر میں گرفتار ہوئے
جب تک تو بہ نہ کریں ان کے پیچھے نماز مکروہ، مگر معاملہ مرتدین پھر بھی برتنا جائز نہیں کہ یہ لوگ بھی اس گناہ سے کا فرنہ ہونگے ہماری شرع مطہر صراط مستقیم ہے افراط و تفریط کسی بات میں پسند نہیں فرماتی البتہ اگر ثابت ہو جائے کہ انہوں نے اسے نصرانی جان کر نہ صرف بوجہ حماقت و جہالت کسی غرض دنیوی کی نیت سے بلکہ خود اسے بوجہ نصرانیت مستحق تعظیم و قابل تجهیز وتکفین و نماز جنازہ تصور کیا تو بے شک جس جس کا ایسا خیال ہو گاوہ سب بھی کافر و مرتد ہیں اور ان سے وہی معاملہ برتنا واجب جو مرتدین سے برتا جائے۔
(ص169)
مزید پڑھیں:نصرانی کا جھوٹا کھانے والے کی نماز جنازہ کا حکم
READ MORE  قرأت میں مقیم امام کے لئے سنت کتنی مقدار ہے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top