رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں؟
: سوال
رفع یدین حضرت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیا یا نہیں اور کب تک کیا؟ کیا یہ بات ثابت ہے کہ ہمیشہ اپ نے کیا؟ مسلمانوں کو کرنا چاہیے یا نہیں؟
:جواب
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ہرگز کسی حدیث میں ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہمیشہ رفع یدین فرمایا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا خلاف ثابت ہے، نہ احادیث میں اسکی مدت مذکور ۔ ہاں حدیثیں اس کے فعل و ترک دونوں میں وارد ہیں سنن ابی داؤ دو سن نسائی و جامع ترمذی وغیر ہا میں ایسی سند سےجس کے رجال صحیح مسلم میں بطریق عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سےمروی فرماتے ہیں” الا اخبر كم بصلاة رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قال فقام فرفع يديه اول مرة ثم لم یعد “ ترجمہ کیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ حضور پر نور صلی للہ تعالی علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے تھے۔
یہ کہ کر نماز کو کھڑے ہوئے توصرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھائے پھر نہ اٹھائے ترمذی نے کہا ”حدیث ابن مسعود رضى الله تعالى عنه حديث حسن و به يقول غير واحد من أهل العلم من اصحاب النبي صلى الله تعالى عليه وسلم والتابعين وهو قول سفيان واهل الكوفه” ترجمه حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث حسن ہے اور یہی مذہب تھا متعد د علما منجملہ اصحاب رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و تابعین کرام و امام سفیان علمائے کوفہ رضی اللہ تعالی عنہم کا ۔
مزید پڑھیں:مسجد کا محراب بالکل قبلہ رخ نہ ہو تو نماز کا حکم؟
مسند امام الائمه مالک الازمہ امام اعظم رضی اللہ عنہ میں ہے” حدثنا حماد عن إبراهيم عن علقمه والاسود عن عبد الله بن مسعود رضی الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم كان لا يرفع يديه الاعند افتتاح الصلوة ولا يعود لشيء من ذلك ” ہمیں حماد نے ابراہیم سے علقمہ واسود سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم صرف نماز کے شروع میں رفع یدین فرماتے پھر کسی جگہ ہاتھ نہ اٹھاتے۔
امام ابوجعفر طحاوی ر حمہ اللہ تعالیٰ شرح معانی الاثر میں فرماتے ہیں ” حدثنا أبی بكرة قال ثنا قال سفيان عن المغية قال قلت لابراهيم حديث وائل انه رأى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم يرفع يديه اذا افتتح الصلاة واذا ركع واذا رفع رأسه من الركوع فقال ان كان وائل راه مرة يفعل ذلك فقد رأه عبد الله خمسين مرة لا يفعل ذلك” مغير ہ كہتے ہیں کہ میں نے امام ابراہیم بی سے حدیث وائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت دریافت کیا کہ انھوں نے حضور پر نور صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور نے نماز شروع کرتے اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین فرمایا، ابراہیم نے فرمایا وائل نے اگر ایک بار حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو رفع یدین کرتے دیکھا تو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پچاس بار دیکھا کہ حضور نے رفع یدین نہ کیا۔
مزید پڑھیں:حالت مجبوری میں بیٹھ کر نماز پڑھنا کیسا؟
صحیح مسلم شریف میں ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” مالي اراكم رافعي ايديكم كانها اذناب خیل شمس اسكنوا فی الصلاة ” کیا ہو اکہ میں تمہیں رفع یدین کرتے دیکھتا ہوں گویا تمہارے ہاتھ چنچل گھوڑوں کی دمیں ہیں قرار سے رہو نماز میں ۔ اصول کا قاعدہ متفق علیہا ہے کہ اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ خصوص سبب کا ۔ اور حاظر ( منع کرنے والی دلیل ) مبیح ( مباح کرنے والی دلیل ) پر مقدم ہے۔ ہمارے ائمہ کرام رضوان اللہ تعالی علہم اجمعین نے احادیث ترک پر عمل فرمایا حنفیہ کو ان کی تقلید چاہئے ، شافعیہ و غیر ہم اپنےائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ کی پیروی کریں کوئی محل نزاع نہیں ۔
ہاں وہ حضرات ( جو ) تقلید ائمہ دین کو شرک و حرام جانتے اور با آنکہ علمائے مقلدین کا کلام سمجھنے کی لیاقت نصیب اعداء اپنے لئے منصب اجتہاد مانتے اور خواہی نخواہی تفریق کلمہ مسلمین و اثارت فتنہ بین المومنین ( مومنین کے درمیان فتنہ پیدا) کرنا چاہتے بلکہ اس کو اپنا ذریعہ شہرت و ناموری سمجھتے ہیں اُن کے راستے سے مسلمانوں کو بہت دور رہنا چاہئے۔ ماناکہ احادیث رفع ہی مرجع ہوں تا ہم آخر رفع یدین کسی کے نزدیک واجب نہیں ، غایت درجہ ( زیادہ سے زیادہ ) اگر ٹھہرے گا تو ایک امر مستحب ٹھہرے گا کہ کیا تو اچھا، نہ کیا تو کچھ برائی نہیں ، مگر مسلمانوں میں فتنہ اُٹھانا دو گروہ کر دینا، نماز کے مقد مے انگریزی گورنمنٹ تک پہنچانا شاید ہم واجبات سے ہوگا۔
اللہ عز وجل فرماتا ہے (وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ) فتنہ قتل سے بھی سخت تر ہے۔ خود ان صاحبان میں بہت لوگ صد با گناہ کبیرہ کرتے ہوں گے انھیں نہ چھوڑنا ، اور رفع یدین نہ کرنے پر ایسی شورشیں کرنا کچھ بھلا معلوم ہوتا ہوگا۔ اللہ سبحانہ وتعالی ہدایت فرمائے آمین۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 153

READ MORE  جمعہ کی آذ ان ثانی رسول اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے زمانہ میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟
مزید پڑھیں:التحیات میں شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top