قریب الموت شخص کے لیے چند ضروری وصیتیں
:سوال
جس وقت آدمی ایسا بیمار ہو جائے کہ زندگی کی امید نہ رہے اسے شرعاً کیا کرنا چاہئے؟
:جواب
آدمی ہر وقت موت کے قبضہ میں ہے، مدقوق ( شدید بخار والا ) اچھا ہو جاتا ہے اور وہ جو اس کے تیمار میں دوڑتا ہے اس سے پہلے چل دیتا ہے، ہر وقت وصیت تیار رہنی چاہئے ، جس میں اپنے پسماندوں ( پیچھے رہنے والے رشتہ داروں ) کو توحید الہی عزو جل رسالت پناہی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واستقامت عقائد اہلسنت و اتباع شریعت و اصلاح ذات بین وحدت و قرب اولیاء و دوری و تنفر از کفار وضلال وفسق کی ہدایت ہو (یعنی اپنے پسماندگان کو اس بات کی بھی ہدایت ہو کہ وہ اولیاء کی محبت اور کفار ، بد عقیدہ و فساق سے دوری اختیار کریں ) اور بعد کو کچھ ترکہ چھوڑے تو اس کا شرعی کافی انتظام جس میں نزاع نہ رہے اور اپنی تجہیز وتکفین میں اتباع سنت کی ہدایت ، اور ان پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔
سب سے پہلے خود اپنی اصلاح ، گناہوں سے تو بہ اللہ تعالی و رسول کی طرف رجوع ، موت کا خوشی کے ساتھ انتظار کرنا کہ آتے وقت ناگواری نہ ہو، اس وقت کی ناگواری معاذ اللہ بہت سخت ہے ، عیاذ باللہ اس میں سوء خاتمہ کا خوف ہے، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ((من احب لقاء الله احب لقاء، ومن كره لقاء الله كره الله لقاء )) جو اللہ سے ملنا پسند کرے گا اللہ اس کا ملنا پسند فرمائے گا اور جو اللہ سے ملنے کو مکروہ رکھے گا اللہ اس کا ملنا مکروہ رکھے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی للہ تعالی علیہ وسلم ہم میں کون ایسا ہے کہ موت کو مکروہ نہ رکھے۔ فرمایا: یہ مراد نہیں بلکہ جس وقت دم سینہ پر آئے اس وقت کا اعتبار ہے اس وقت جو اللہ سے ملنے کو پسند رکھے گا اللہ تعالی اس سے ملنے کو دوست رکھے گا۔ اور ( جو اللہ عزوجل سے ملنے کو ناپسند ( رکھے ) تو ( وہ بھی ناپسند ( رکھے گا)۔
(صحیح بخاری ج 2 ص 963، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مزید پڑھیں:حج کا بیان: منی کی روانگی اور عرفہ کا وقوف
اپنے ذمہ نماز یا روزہ یا زکوۃ جو کچھ ہاتی ہو فورا بقدر قدرت اس کی ادا میں مشغول ہوحج نہ کیا ہو اور فرض تھا تو دیر نہ لگائے ۔ بوجہ مرض طاقت نہ رہی تو حج بدل کرادے اگر اخیر دم تک طاقت نہ پائے گا ادا ہو جائے گا ورنہ جب قوت پائے خود ادا کرے، حقوق العباد جس قدر ہوں جو ادا کرنے کے ہیں ادا کرے، جو معافی چاہنے کے ہیں معافی چاہے اور اس میں اصلا تا خیر کو کام نہ لائے کہ یہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتے ، معافی چاہنے میں کتنی ہی تواضع کرنی پڑے اس میں اپنی کسر شان نہ سمجھے اس میں ذلت نہیں ، ذلت اس میں ہے کہ جس روز بارگاہ عزت میں حاضر ہو کہ اس کا حق دبایا ہے، اس سے برا کہا ہے
، اس کی غیبت کی ہے، اسے مارا ہے، اور وہ حقدار اس سے لپٹیں ، اس کی نیکیاں ان کو دی جائیں ، ان کے گناہ اس پر رکھے جائیں ، اور جہنم میں پھینک دیا جائے والعیاذ باللہ تعالی ، جب تک زیست ہے آیات واحادیث خوف کے ترجمے اکثر سنا اور دیکھا کرے، اور جب وقت برابر آ جائے ، اسے آیات واحادیث رحمت مع ترجمے کے سنائیں کہ جانے کہ کس کے پاس جارہا ہوں تا کہ اپنے رب کے ساتھ نیک گمان کرتا اٹھے۔ رزقنا الله تعالی بجاه حبيبه الاكرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (اللہ تعالی اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علی الہ سلم کے طفیل ہمیں نصیب کرے )۔
مزید پڑھیں:جنازہ کو کندھا دینے کا طریقہ
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 126

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top