جمعہ کن لوگوں پر اور کہاں کہاں جائز ہے؟
:سوال
ایک شخص کہتا ہے کہ جمعہ کی نماز ہر شخص پر فرض ہے سوا اُن کے جن کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مستثنی فرما دیا، مشکوۃ شریف میں مرفوعاً روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی الہ تعالی علیہ وسلم نے کہ جمعہ حق ہے اور واجب ہے مگر چار پر ، غلام اور عورت اور نا بالغ اور بیمار، یعنی ان چار کے سوا سب پر واجب ہے ، خود کسی کا نوکر ہو یا سوداگر یا کھیتی والا یا مزدور ہو، بعض روایت میں مسافر کا بھی ذکر ہے، اور اسی کتاب میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے مرفوعا روایت ہے فرما یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کہ باز آ ئیں لوگ جمعہ کا ناغہ کرنے سے ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ منافقوں میں سے ہو جائیں گے یعنی ان کا نام منافقوں کے دفتر میں لکھا جائے گا۔ لہذا نماز جمعہ ہر جگہ پڑھنا چاہئے خواہ شہر ہو یا گاؤں ہو یا جنگل ہو یا بن ہو کیونکہ و حدیث شریف میں کوئی خصوصیت نہیں آتی ہے۔
: جواب
جمعہ بن (جنگل) میں حرام ہے اور گاؤں میں نا جائز ہے اور عمومات اپنے شروط سے مشروط ہوتے ہیں ، احادیث سے جو جاہلانہ استناد کسی جاہل نے کیا ہے وہ اگر دامن ائمہ چھوڑے تو یہی بتائے کہ یہ حدیثیں اس نے شروع میں کیونکر حجت قرار دیں، اللہ تعالی نے سورہ جمعہ میں( یا یھا الذین امنوا ) ( اے ایمان والو) مطلق ارشاد فرمایا ہے۔ اس میں عورت یا بچے یا غلام یا مریض یا مسافر کسی کا استثنا نہیں تو کیوں نہیں کہتا کہ چار برس کے بچے پر بھی جمعہ فرض ہے وہ احادیث سب خبر آحاد ہیں اور خبر احاد موجب ظن، تو ان سے (اس مقام پر ) استدلال کرنا اس کو حرام اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے( ان يتبعون الا الظن ) ترجمہ: وہ نہیں اتباع کرتے مگر ظن کی ۔ اور فرماتا ہے( ان الظن لا يغنى من الحق شيئا ) ترجمہ: بلا شبہ طن حق سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔
مزید پڑھیں:مسافر کتنی دور جانے پر مسافر کہلائے گا؟
تو ان پر عمل خصوصاً عموم قرآن مجید کے خلاف کیونکر اس نے حلال کر لیا، اور یہ بھی اس وقت ہے کہ ان احادیث آحاد کی صحت ثابت کرلے، ائمہ مجتہدین کا اجتہاد نہ مانا اور بخاری ومسلم کی تصحیح یا نسائی و دار قطنی کی تعدیل و تخریج پر اعتماد کرنا ظلم شدید و جہل بعید ہے، کون سی آیت یا حدیث میں آیا ہے کہ بخاری جس حدیث کو صحیح کہہ دیں اسے مانو اور جسے ضعیف کہہ دیں اسے نہ مانو یا یحی و شعبہ جسے ثقہ کہہ دیں ایسے معتمد جانو اور ضعیف کہہ دیں تو ضعیف جانو، قرآن و حدیث متواترہ اجماع امت کو حجت بتاتے ہیں، اور اجماع امت ہے کہ جمعہ کا حکم مطلق و عام نہیں مقید بقیود مشروط بشرائط ہے اور جو اجماع کا خلاف کرتا ہے قرآن عظیم فرماتا ہے( ونصله جهنم وساءت مصيرا ) ہم اسے جہنم میں ڈالیں گے وہ بہت بری پھرنے کی جگہ۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 449

READ MORE  ایک مسجد میں دوعید کی نمازیں ہوئیں، کیا یہ درست ہے؟
مزید پڑھیں:اگر بغیر خطبہ نماز جمعہ پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top