:سوال
جس پر حج فرض ہے اور اب مال حرام کے علاوہ کچھ نہیں، آپ کے فرمانے کے مطابق وہ قرض لے لیتا ہے، مگر واپس کہاں سے کرے گا کیوں کہ اس کے پاس تو صرف حرام روپیہ ہی ہے، نیز اگر وہ قرض مال حرام سے ادا کرتا ہے تو یہ قرض کیسے حلال ہوگا ؟
:جواب
روپیہ کہ قرض لیا گیا کہ ایک مال حلال ہے کہ عقد صحیح شرع سے حاصل کیا تو اس میں خبث کی کوئی وجہ نہیں، عالمگیری وغیرہ کتب معتمدہ میں تصریح ہے کہ جس کا مال حرام ہے وہ اگر زید کی دعوت کرے یا اسے کچھ دے اور کہے ورثته او استقرضته “ یہ مال مجھے ترکہ میں ملا ہے یا میں نے قرض لیا ہے، تو اس کا لینا اور دعوت کھانا حلال ہے اور جب حج اس کے فرض ہو چکا تھا اور اب اس کے پاس مال حلال نہ رہا صرف مال حرام ہے اور مال حرام سے حج مردود ہے، تو چارہ کا رسوا اس کے کیا ہے کہ کسی ذریعہ سے حلال مال حاصل کر کے حج کو جائے اور فرض ادا کرے ، قرض بھی ذریعہ حلال ہے،
یہ فرض تو ادا ہو گیا، ہاں ادائے قرض میں اس پر دقت ہے کہ مال حرام کو اپنے کسی مصرف میں صرف کرنا اسے جائز نہیں، مگر یہ مسئلہ جدا گانہ ہے حج سے اسے تعلق نہیں، اپنی نجات چاہے تو مال حرام اس کے مالک کو یا وارثوں کو پہنچائے اور نہ ملیں تو تصدق کرے اور وجہ حلال سے مال پیدا کر کے قرض ادا کرے اگر ادا ہو گیا فبہا ورنہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ حج یا جہاد یا نکاح کے لیے قرض لے وہ قرض الله عز وجل کے ذمہ کرم پر ہے، اور اگر پیروی نفس کی اور مال حلال کی طرف توجہ نہ کی اسی حرام سے قرض ادا کیا اور اپنے مصارف میں صرف کرتا رہا تو یہ ایک گناہ ہے اور حج ادا نہ کرتا تو دو گناہ تھے ایک گناہ سے بچ – گیا یہ کیا کم ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 710