یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اسکا مطلب کیا ہے؟
سوال
آپ نے فرمایا کہ حدیث صحیح نہ ہونے کا معنی یہ نہیں کہ غلط ہے تو پھر اس کا کیا معنی ہے؟
جواب
محدثین کرام کا کسی حدیث کو فرمانا کہ صحیح نہیں اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ غلط وباطل ہے بلکہ صحیح ان کی اصطلاح میں ایک اعلی درجے کی حدیث ہے جس کے شرائط سخت ودشوار اور موانع وعلائق کثیر و بسیار حدیث میں ان سب کا اجتماع اور ان سب کا ارتفاع کم ہوتا ہے پھر اس کمی کے ساتھ اس کے اثبات میں سخت دقتیں اگر اس مبحث کی تفصیل کی جائے کلام طویل تحریر میں آئے ان کے نزدیک جہاں ان باتوں میں کہیں بھی کمی ہوئی فرما دیتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں یعنی اس درجے علیا کو نہ پہنچی
اس سے دوسرے درجے کی حدیث کو حسن کہتے ہیں یہ بلا آنکہ صحیح نہیں پھر بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ورنہ حسن ہی کیوں کہلاتی فقط اتنا ہوتا ہے اس کا پایا بعض اور صاف میں اس بلند مرتبے سے جھکا ہوتا ہے اس قسم کی بھی سینکڑوں حدیثیں صحیح مسلم وغیرہ کتب صحاح بلکہ عند التحقیق بات صحیح بخاری میں بھی ہیں یہ قسم بھی استناد (سند پکڑنے) واحتجاج ( حجت پکڑنے) کی پوری لیاقت رکھتی ہے وہی علماء جو اسے صحیح نہیں کہتے برابر اس پر اعتماد فرماتے اور احکام حلال وحرام میں حاجت بناتے
حلیہ شرح منیہ میں ہے
” على المشى على مقتضى الاصطلاح الحديثي لا يلزم من نفى الصحة بفي الثبوت.
على وجہ الحسن معنی اصطلاح علم حدیث کی رو سے صحت کی نفی حسن ہو کر ثبوت کی نافی نہیں۔
سند الحفاظ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اذکارامانووی کی تخریج احادیث میں فرماتے ہیں
من نفی الصحتہ لاینتفی الحسن
یعنی صحت کی نفی سے حدیث کا حسن ہونا من منتفی نہیں ہوتا
یہی امام نزہتہ النظر فی توضیح نخبتہ الفکر میں فرماتے ہیں
” هذا القسم من الحسن مشارك للصحيح في الاحتجاج بہ وان کان دو نه
یعنی حدیث حسن لذاتہ اگرچہ صحیح سے کم درجہ میں ہے مگرحجت ہونے میں صحیح کی شریک ہے
تو یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ صحت حدیث سے انکار نفی حسن میں بھی نص نہیں جس سے قابلیت احتجاج منتفی ہو نہ که صالح ولائق اعتبار نہ ہونا کہ محض باطل و موضوع ٹھہرنا ہے جس کی طرف کسی جاہل کا بھی ذہن نہ جائے گا کہ صحیح و موضوع دونوں ابتداء انتہاء کے کناروں پر واقع ہیں سب سے اعلی صحیح اور سب سے بدتر موضوع اور وسط میں بہت اقسام حدیث ہیں درجہ بدرجہ
مزید پڑھیں:حدیث کے مراتب اور ان کے احکام
READ MORE  حاجی کے لیے روضہ اقدس ﷺ کی زیارت کا کیا حکم ہے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top