آذان دینے کے احکامات
سوال
مکہ معظمہ ومدینہ منورہ میں یہ اذان مطابق حدیث وفقہ ہوتی ہے یہاں اس کے خلاف اگر خلاف ہوتی ہے تو وہاں کے علماء کرام کے ارشادات دوبارہ عقائد حجت ہیں یا وہاں کے تنخواہ دار موذنوں کے فعل اگرچہ خلاف شریعت و حدیث وفقہ ہوں؟
جواب
مکہ معظمہ میں یہ آذان کنارہ مطاف پر ہوتی ہے۔
رسول اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں مسجد حرم شریف مطاف ہی تک تھی
مسلک متقسط علی قاری میں ہے
المطاف هو ما كان في زمنه صلى الله تعالى علیہ وسلّم مسجد
ترجمہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم کی ظاہری حیات میں مسجد حرام مطاف تک ہی تھی
تو حاشیه مطاف بیرون مسجد و محل آذان تھا اور مسجد جب بڑھا لی جائے تو پہلے جو جگہ اذان یا وضو کے لیے مقرر تھی بدستور مستثنی رہے گی ولہذامسجد اگر بڑھا کر کنواں اندر کر لیا وہ بند نہ کیا جائے گا جیسے زمزم شریف حالانکہ مسجد کے اندر کنواں بناناہرگز جائز نہیں
تو مکہ معظمہ میں آذان ٹھیک محل پر ہوتی ہے
مدینہ طیبہ میں خطیب سے بیس بلکہ زائد ذراع کے فاصلہ پر ایک بلند مقبرہ پر بیٹھتے ہیں طریق ہند کے تو یہ بھی خلاف ہو اور جو بین یدیہ وغیرہ سے ممبر کے متصل ہونا سمجھتے تھے اس سے بھی رد ہوگا تو ہندی فہم و طریقہ خود ہی دونوں حرم متحرم سے جدا ہے
اب سوال یہ ہے کہ مکبرہ قدیم سے ہے یا بعد کو حادث ہوا اگر قدیم تو مثل منارہ ہوا کہ وہ اذان کے لیے مستثنی ہے اس کی نظیر موضع وضو وچاہ (کنواں) ہیں کہ قدیم سے جدا کر دیے ہو نہ اس میں حرج نہ اس میں کلام اور اگر حادث ہے تو اس پر اذان کہنا بالائے طاق
پہلے یہی ثبوت دیجئے کہ وسط مسجد میں ایک جدید مکان ایسا کھڑا کر دینا جس سے صفیں قطع ہوں کس شریعت میں جائز ہے قطع صف بلا شبہ حرام ہے
رسول اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
من قطع صفاقطعہ اللہ
جو صف کوقطع کرے اللہ اسے قطع کر دے
روا النسائی والحا کم بسند صحیح عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا
نیز علماء نے تصریح فرمائی کہ مسجد میں پیڑ بونا منع ہے کہ نماز کی جگہ گھیرے گا نہ یہ کہ مکبرہ کہ چار جگہ سے جگہ گھیرتا ہے اور کتنی صفیں قطع کرتا ہے با لجملہ اگر وہ جائز طور پر بنا تو مثل منارہ ہے جس سے مسجد میں اذان ہونا نہ ہوا اور ناجائز طور پر ہے تو اسے ثبوت میں پیش کرنا کیا انصاف ہے
اب ہمیں افعال موذنین سے بحث کی حاجت نہیں مگر جواب سوال کو گزارش کے ان کا فعل کیا حاجت ہو حالانکہ کے خطیب خطبہ پڑھتا ہے اور یہ بولے جاتے ہیں جب وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا نام لیتا ہے یہ بآواز ہر نام پر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے جاتے ہیں جب وہ سلطان کا نام لیتا ہے یہ بآواز دعا کرتے ہیں اور یہ سب بلا اتفاق ناجائز ہے صحیح حدیثیں اور تمام کتابیں ناطق (دلالت کرتی) ہیں کہ خطبہ کے وقت بولنا حرام ہے
پھر کسی عاقل کے نزدیک ان کا فعل کیا حجت ہو سکتا ہے نہ وہ علماء ہیں نہ علماء کے زیر حکم
مزید پڑھیں:مسجد میں آذان دینے کا حکم؟
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 03, Fatwa 72

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top