:سوال
جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان امام کا دعا مانگنا کیسا ہے؟
:جواب
امام کے لئے تو اس دُعا کے جواز میں اصلاً کلام نہیں ، جس کے لئے نہی شارع نہ ہونا ہی سند کافی ممنوع و ہی ہے جسے خد اور سول منع فرمائیں جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔ بے اُن کی نہی کے ہرگز کوئی شے ممنوع نہیں ہوسکتی خصوصاً د عاسی چیز جس کی طرف خود قرآن عظیم نے بکمال ترغیب و تاکیدعلی . الاطلاق بے تحدید و تقید بلایا اور احادیث شریفہ نے اسے عبادت و مغز عبادت فرمایا، پھر یہاں صحیح حدیث کا فحوی الخطاب اُس کی اجازت پر دلیل صواب کہ خود حضور پر نوسید عالم صلی الله تعا لی علیہ و سلم کا عین خطبہ میں دست مبارک بلند فرما کر ایک جمعہ کو مینہ برسنے اور دوسرے کو مدینہ طیبہ پر سے کھل جانے کی دعامانگنا صحیح بخاری مسلم وغیر ہا میں حدیث انس رضی الله تعالی عنہ سے مروی حالانکہ وہ قطع خطبہ کوستلزم، تو بین الخطبتین بدرجہ اولی جواز ثابت، لاجرم علمائے کرم نے شروح حدیث وغیرہ کتب میں صاف اُس کا جواز افادہ فرمایا۔ ،
مزید پڑھیں:وہابیوں کا خطبہ جمعہ اور نماز کا حکم
صحیح حدیث حضور سیدالمرسلین ﷺو متعد اقوال صحابہ وتابعین کی رو سے یہ جلسہ ان اوقات میں ہے جن میں ساعت اجابت جمعہ کی امید ہے، صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابی موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے درباره ساعت جمعہ فرمایا ( هي ما بين ان يجلس الامام الى ان تقضى الصلوة)) ترجمہ: امام کے جلوس سے نماز ختم ہونے تک ساعت جمعہ ہے۔
(صحیح مسلم شریف ، ج 1، ص 281 مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع ، کراچی)
مزید پڑھیں:بحری جہاز پر جمعہ و عید کا حکم؟
دوسری حدیث میں آیا حضور پر نور صلوات اللہ وسلامہ علیہ نے فرمایا: شروع خطبہ سے ختم خطبہ تک ہے رواہ ابن عبدالبر عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ( اسے ابن عبدالبر نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت کیا ہے )۔ بہر حال یہ وقت بھی ان میں داخل، تو یہاں دُعا ایک خاص ترغیب شرح کی مورد خصوصا حدیث دوم پر جبکہ کسی مطلب خاص کے لئے دُعا کرنی ہو جسے خطبہ سے مناسبت نہ ہو تو اس کے لئے یہی جلسہ بین الخطبتین کا وقت متعین بلکہ علامہ طیبی شارح تو مشکوۃ نے با لتعیین اسی وقت کو ساعت اجابت بتایا اور اسے بعض شراح مصابیح سے نقل فرمایا بلکہ خود ارشاد اقدس (( ما بین ان يجلس الامام )) (امام کے بیٹھنے سے لے کر ) سے یہی جلسہ مرا در رکھا۔ اس قول پر تو بالخصوص اسی وقت کی دعا شرعا اجل المند وبات واجب مرغوبات سے ہے۔
پھر اس قدر میں اصلاً شک نہیں کہ جب بغرض تقویت رجاء جمع احادیث و اقوال علماء چاہئے ، جو امثال باب مثل لیلہ القدر و غیر ہا میں ہمیشہ مسلک محققین رہا ہے، تو بقیہ اوقات کے ساتھ اس وقت بھی دعا ضر ور درکار ہوگی اور اس کے نیک و مستحسن ماننے سے چارہ نہ ہوگا ، لا جرم صاحب عین العلم نے کہا جوا کا بر علمائے حنفیہ سے ہیں صاف تصریح فرمائی کہ اس جلسہ میں منتخب ہے، اسی طرح امام ابن المنیر نے افادہ استحسان جمع فرمایا ، طرہ یہ کہ یہ قول امام مدوح حضرات منکرین کے امام شوکانی نے نیل الاوطار شرح ملتقی الاخبار میں نقل کیا اور مقر رو مسلم رکھا۔ یہ (مذکورہ بالا حکم امام کا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 477