:سوال
ایک شخص اہل و عیال رکھتا ہے اپنی ماہانہ یا سالانہ آمدنی سے بلا افراط و تفریط اپنے بال بچوں پر ایک حصہ خرچ کر کے باقی اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے، آئندہ کو اہل عیال کے لیے کچھ نہیں چھوڑتا، اور دوسر شخص آمدنی کا ایک حصہ بچوں پر خرچ کرتا ہے، دوسرا حصہ خیرات کرتا اور تیسرا حصہ آئندہ ان کی ضرورتوں میں کام آنے کی غرض سے رکھ چھوڑتا ہے، ان دونوں میں افضل کون ہے؟
:جواب
حسن نیت سے دونوں صورتیں محمود ہیں، اور باختلاف احوال ہر ایک افضل کبھی واجب، ولہذا اس بارہ میں احادیث بھی مختلف آئیں اور سلف صالح کا عمل بھی مختلف رہا۔
اس میں قول موجز و جامع ان شاء اللہ تعالی یہ ہے کہ آدمی دو قسم ہیں (1) منفرد کہ تنہا ہو (2) اور معیل کہ عیال رکھتا ہو۔ سوال اگر چہ معیل سے متعلق ہے مگر ہر معیل اپنے حق نفس میں منفرد اور اس پر اپنے نفس کے لحاظ سے وہی احکام ہیں جو منفرد پر ہیں لہذ ادونوں کے احکام سے بحث درکار۔
:اول
وہ اہل القطاع ( دنیا سے منقطع) و تبتل الی اللہ ( اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ) اصحاب تجرید و تفرید جنھوں نے اپنے رب سے کچھ نہ رکھنے کا عہد باندھا ان پر اپنے عہد کے سبب ترک از خار ( ذخیرہ نہ کرنا) لازم ہوتا ہے اگر بچار کھیں تو نقض عہد ہے اور بعد عہد پھر جمع کرنا ضرور ضعف یقین سے ناشئی یا اُس کا موہم ہوگا، ایسے اگر کچھ بھی ذخیرہ کریں مستحق عقاب ہوں ، حضور پر نورسید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کچھ خرمے ( کجھوریں) جمع دیکھے، فرمایا: یہ کیا ہے؟ عرض کی ((شنی ادخرته لغد)) میں نے آئندہ کے لیے جمع کر رکھے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے ((اعد ذلك لا ضمافك ) حضور کے مہمانوں کے خیال سے انھیں رکھا ہے۔ فرمایا ((اما تخشى ان يكون لك دخان في نار جهنم انفق يا بلال ولا تخشى من ذوى العرش اقلا لا)) کیا ڈرتا نہیں کہ تیرے آتش دوزخ کا دھواں ہو، اے بلال ! خرچ کر اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کرو۔
(شعب الایمان، باب فی الزکوة ، حدیث ۳۳۳۸، ج 3، ص 209، دارالکتب العلمیہ، بیروت )
مزید پڑھیں:کیا اہل قبور زائرین کو دیکھتے پہچانتے ہیں؟ کچھ اقوال علماء
ایک بارا نہی بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے بلال! فقیر مرنا اور غنی ہو کر نہ مرنا ، عرض کی : اس کی دی سبیل ہے؟ فرمایا: جو ملے نہ چھپانا اور جو مانگا جائے منع نہ کرنا ( ظاہر کے جب نہ مال چھپانا ہو نہ کسی سوال رد کیا جائے تو سائلین کسی وقت بھی کچھ پاس نہ چھوڑیں گے ) عرج کی ایسا کیونکر کروں؟ فرمایا ((هو ذاك او النار)) يا تو یونہی کرنا ہوگا یا آگ۔
جم الکبیر، مردی از بلال رضی اللہ عنہ حدیث ۱۰۲۱، ج 1 ص 341 المكتبة الفيصليه ، بیروت)
:دوم
فقر و تو کل ظاہر کر کے صدقات لینے والا اگر یہ حالت مستمر رکھنا چاہے تو اُن صدقات میں سے کچھ جمع کر رکھنا اُسے نا جائز ہوگا کہ یہ دھوکا ہوگا اور اب جو صدقہ لے گا حرام و خبیث ہوگا، انہی دونوں باب سے ہیں وہ احادیث جن میں ایک اشرفی ترکہ چھوڑنے والے کو ایک داغ فرمایا دو پر دو، تین پر تین یعنی فی اشرفی ایک داغ دیا جائیگا۔
مسند احمد بن مقبل ، مردی از ابوامامه ، ج 5، ص 253، دار الفکر، بیروت
ظاہر ہے کہ ان حدیثوں کا مل نہیں ہو سکتا جو آیہ کریمہ والذین یکنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله فبشر هم بعذاب اليم يومه يحمى عليها في نار جهنم فتكوى بها جباههم وجنوبهم وظهورهم هذا ما كنزتم لانفسكم فذوقوا ما كنتم تکنزون) ( ترجمہ: جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دیجئے کہ جس دن جہم کی آگ میں انھیں پگھلایا جائے گا اور ان کی پیشانیوں ، پہلوؤں اور پیٹھوںکو داغا جائے گا ( اور کہا جائے گا)
یہ ہے وہ خزانہ جسے تم اپنے لیے جمع کرتے تھے اب اپنے جمع کئے ہوئے کا عذاب چکھو) کا محمل ہے کہ جب زکوٰۃ دے دے حقوق واجبہ شرعیہ ادا کردے کنز نہ رہ اور سبیل اللہ میں خرچ نہ کرنا صادق نہ آیا لہذا استحقاق داغ نہ رہا۔ اور یہ اس لیے کہ بیس دینا رسے کم پرنہ زکوتہ نہ کوئی صدقہ واجبہ لا جرم یہاں استحقاق واغ انہی دو وجہ سے ایک پر ہو۔ الله تعالی فرماتا ہے و و اوفوا بالعهد ان العهد كان مسئولا ) ترجمہ: عہد پورا کر عہد کے بارے میں پو چھا جائے گا۔
(القر آن ۳۳/۷)
مزید پڑھیں:کیا موت سے روح میں اصلاً تغیر نہیں ہوتا؟
قوت القلوب اور الترغیب میں ہے انما كان كذلك لانه ادخر مع تلبسه بالفقر ظاهر او مشاركته الفقراء فيما يأتيهم من الصدقة ” ترجمہ: یہ داغ اس لیے ہے کہ ذخیرہ کرنے کے ساتھ اس نے ظاہراً فقر کا اظہار کیا اور وہ صدقات میں فقراء کے ساتھ شریک ہو گیا۔
الترغيب والترهيب ، كتاب الصدقات الترغيب في الانفاق في وجوه الخير الخ ج 2 ص 58 مصلے الہالی مصر )
یہ اُسی تقدیر ہے کہ داغ سے مراد عیاذ باللہ آتش دوزخ میں تپا کر داغ دینا ہو، اور اگر اس سے دھبامراد ہو یعنی اس کے جمال و نورانیت میں وہ ایسے معلوم ہوں گے جسے چہرہ چیچک وغیرہ کا داغ ، اور جن موردوں کے بارے میں یہ حدیثیں آئیں وہاں بلاشبہ یہی معنی دوم انسب واقرب ہیں تو وہ ان دونوں قسموں سے الگ ہیں۔
:سوم
جسے اپنی حالت معلوم ہو کہ حاجت سے زائد جو کچھ بچا کر رکھتا ہے نفس اُسے طغیان و عصیان پر حامل ہوتا یا کسی معصیت کی عادت پڑی ہے اس میں خرچ کرتا ہے تو اس پر معصیت سے بچنا فرض ہے اور جب اُس کا یہی طریقہ معین ہو کہ باقی مال پانے پاس نہ رکھے تو اس حالت میں اس پر حاجت سے زائد سب آمدنی کو مصارف خیر میں صرف کر دینا لازم ہوگا۔
:چهارم
جو ایسا بے صبرا ہو کہ اُسے فاقہ پہنچے تو معاذ اللہ رب عزوجل کی شکایت کرنے لگے اگر چہ صرف دل میں، نہ زبان سے، یا طرق ناجائز مثل سرقہ (چوری) یا بھیک وغیرہ کا مرتکب ہو، اس پر لازم ہے کہ حاجت کے قدر جمع رکھے، اگر پیشہ ور ہے کہ روز کا روز کھاتا ہے تو ایک دن کا ، اور ملازم ہے کہ ماہوار ملتا ہے یا مکانوں دکانوں کے کرایہ پر بسر ہے کہ مہینہ پیچھے آتا ہے تو ایک مہینہ کا اور زمیندار ہے کہ فصل یا سال پر پاتا ہے تو چھ مہینہ یا سال بھر کا فان دردء المفاسد اهم من جلب المصالح ( مصالح کے حصول سے مفاسد کا ختم کرنا اہم ہوتا ہے ) اور اصل ذریعہ معاش مثلاً آلات حرفت یا دکان مکان دیہات بقدر کفایت کا باقی رکھنا تو مطلقاً اس پر لازم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ((من رزق فی شنی فلیلز مه) ترجمہ: جوشئی کسی کا ذیعہ رزق ہوؤہ اسےلازم پکڑے۔
(شعب الایمان، باب التوكل و التسليم ، حدیث ۱۳۳۱، ج 2، ص 80، دار الکتب العلمیہ، بیروت ) .
مزید پڑھیں:مردہ کو ندا کرنے اور حاجت طلب کرنے کے جواز میں اقوال علماء
دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ( ما من عبد يبيع تالدا الاسلط الله علیه تالفا)) ترجمہ: جو بندہ قدیم جائیداد کو بیچ دے اللہ تعالی اس پر تلف کونے والا مسلط کر دیتا ہے۔
(المعجم الکبیر مروی ا زعمران بن حصین ،ج 18 ،ص22 2 المکتبتہ الفیصلیہ ،بیروت)
:پنجم
جو عالم دین مفتی شرح یا مدافع بدع ہو اور بیت المال سے رزق نہیں پاتا ، جیسا یہاں ہے، اور وہاں اس کا غیران مناصب دینیہ پر قیام نہ کر سکے کہ اتنا یا دفع بدعات میں اپنے اوقات کا صرف کرنا اس پر فرض عین ہو اور وہ مال و جائداد رکھتا ہے جس کے باعث اسے غنا اور ان فرائض دینیہ کے لیے فارغ البالی ہے کہ اگر خرچ کر دے محتاج کسب ہو اور ان امور میں خلل پڑے، اس
پر بھی اصل ذریعہ کا ابقا اور آمدنی کا بقدر مذکو جمع رکھنا واجب ہے فان مقدمة الفريضة فريضهة ( كسي فريضہ كا مقدمہ فرض ہوتا ہے۔ ایسے عالم کو جہاد کے لیے جانے کی اجازت نہیں کسب مال میں وقت صرف کرنے کی کیونکر اجازت ہو سکتی ہے۔
:ششم
اگر وہاں اور بھی عالم یہ کام کر سکتے ہوں تو ابقاء و جمع مذکور اگر چہ واجب نہیں مگر اہم و موکد بیشک ہے کہ علم دین و حمایت دین کے لیے فراغ بال کسب مال میں اشتعال سے لاکھوں درجے افضل ہے معہذا ایک سے دو اور دو سے چار بھلے ہوتے ہیں ایک کی نظر کبھی خطا کرے تو دوسرے اسے صواب کی طرف پھیر دیں گے، ایک کو مرض وغیرہ کے باعث کچھ عذر پیش آئے تو جب اور موجود ہیں کام بند نہ رہے گا لہذ اتعدد علمائے دین کی طرف ضرور حاجت ہے۔
:ہفتم
عالم نہیں مگر طلب علم دین میں مشغول ہے اور کسب میں اشتغال اُس سے مانع ہوگا تو اس پر بھی اُسی طرح ابقاء جمع مسطور آکدہ واہم ہے۔
:ہشتم
تین صورتوں میں جمع منع ہوئی، دو میں واجب ، دو میں موکدہ جوان آٹھ سے خارج ہو، وہ اپنی حالت پر نظر کرے اگر جمع نہ رکھنے میں اس کا قلب پریشان ہو تو جہ بعبادت و ذکر الہی میں خلل پڑے تو بمعنی مذکور بقدر حاجت جمع رکھنا ہی افضل ہے اور اکثر لوگ اسی قسم کے ہیں۔ شب چو عقد نماز بر بندم چه خورد با مداد فرزندم ترجمہ: رات کو نماز میں دل کیا لگے جب یہ پریشانی ہو کہ صبح بچے کیا کھائیں گے۔ جب یہاں وہ لوگ مراد ہیں جن کو توجہ بخدا کا قصد ہے ورنہ منهمكين في الدنيا تو کسی وقت بھی متوجہ نہیں ہوتے غنی ہوں تو بھول جائیں۔
مزید پڑھیں:صحابہ کرام کے اہل قبور سے کلام کرنے کے کچھ واقعات
: نہم
اگر جمع رکھنے میں اس کا دل متفرق اور مال کے حفظ یا اس کی طرف یا میلان سے متعلق ہو تو جمع نہ رکھنا ہی افضل ہے کہ اصل مقصود ذکر الہی کے لیے فراغ بال ہے جو اُس میں مخل ہو وہی خم ہے۔
:دہم
اصحاب نفوس مطمئنہ ہوں ، عدم مال سے اُن کا دل پریشان نہ وجو د مال سے ان کی نظر، وہ مختار ہیں ۔ حق سبحانہ اپنے نبی سیدنا سلیمان علیہ السلام سے فرماتا ہے وهذا عطاؤنا منن او امسک بغیر حساب کا ترجمہ : یہ ہماری عطا ہے اب تو چاہے تو احسان کر یا روک رکھ، تجھ پر کچھ حساب نہیں۔
:یازدهم
حاجت سے زیادہ کا مصارف خیر میں صرف کر دینا اور جمع نہ رکھنا صورت سوم میں تو واجب تھا باقی جملہ صور میں ضرور مطلوب، اور جوڑ کر رکھنا اس کے حق نا پسند و معیوب کے منفرد کو اس کا جوڑ نا طول امل یا حب دنیا ہی سے ناشئی ہو گا اور طول امل ضرور ہے، اور دنیا اشر الشرور ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ((عن في الدنيا كانك غريب او عابر سبيل وعد نفسك من اصحاب العبور اذا اصبحت فلا تحدث فنسك بالمساء واذا امسيت فلا تحدث نفسك بالصباح) ترجمہ: دنیا میں یوں رہ گویا تو مسافر بلکہ راہ چلتا ہے اور اپنے آپ کو قبر میں سمجھ کر صبح کرے تو دل یہ خیال نہ لا کہ شام ہو گی ، اور شام ہو تو یہ نہ سمجھ کہ صبح ہوگی۔
(جامع الترمدی، ابواب الفرید، باب ما جاء فی قصر الامل و ج 2 ص 57، امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ، دہلی)
یہ سب منفرد کا بیان ، رہا عیالدار ظاہر ہے کہ وہ اپنے نفس کے حق میں منفر د ہے، تو خود اپنی ذات کے لیے اُسے انھیں احکام کا لحاظ چاہئے اور عیال کی نظر سے اس کی صورتیں اور ہیں ان کا بیان کریں۔
:دو از دہم
عیال کی کفایت شرع نے اس پر فرض کی وہ ان کو تو کل و تبتل وصبر علی الفاقہ پر مجبور نہیں کر سکتا، اپنی جان کو جتنا چاہے گئے مگر ان کو خالی چھوڑ نا اس پر حرام ہے۔ حضور پرنورسید المتوکلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے نفس کریم کے لیے کل کا کھانا بچا رکھنا پسند نہ فرماتے۔۔ اور اپنی عیال کے لیے مال سال بھر کا قوت جمع فرما دیتے۔
:سیزدہم
وہ جس کی عیال میں صورت چہارم کی طرح بے صبرا ہو اور بے شک بہت عوام ایسے نکلیں گے تو اس کے لحاظ سے تو اس پر دو ہر او جوب ہو گا کہ قدر حاجت جمع رکھے۔
مزید پڑھیں:روحیں نہیں مرتی تو پھر موت کا کیا مطلب ہے؟
:چهار دہم
ہاں جس کی سب عیال صابر و متوکل ہوں اسے روا ہو گا کہ سب راہ خدا میں خرچ کر دے۔ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک بار صدقہ کا حکم فرمایا، امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں خوش ہوا کہ اگر صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر سبقت لے جاؤں گا تو اس بار میرے پاس مال بہت ہے اور ان کے پاس کم ۔ فاروق اپنے تمام مال کا نصف حاضر لائے ۔ ارشاد ہوا: عیال کے لیے کیا چھوڑا ؟ عرض کی : اتنا ہی۔ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام و کمال اتنا اپنا سارا مال حاضر لائے ، ارشاد ہوا: عیال کے لیے کیا چھوڑا ؟ عرض کی: اللہ و رسول جل وعلاد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضور اقدس نے فرمایا (( بينكما ما بين كلمتيكما)) ترجمہ: تم دونوں کے مرتبوں میں وہ فرق ہے جو تمھاری ان باتوں میں ہے۔
اگر صاحب جائیداد ہے اور اسکی آمدنی خرچ سے زائد ہے تو اس کی آمدنی سے بقدر خرچ رکھ کر باقی کا تصدق مطلقا افضل ہے، اگر دخل ماہانہ ہے تو ایک مہینہ کا خرچ رکھ کر، اور سالانہ تو ایک سال کا، اس سے زائد کا جمع رکھنا حرص وحب دنیا سے ناشئی ہوتا ہے، اور جب دنیا خطا کی جڑ ہے۔ صحیحین میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے ( ( ان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم كان ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال ثم يأخذ ما بقى فيجعله معجل مال الله )) ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اسی مال سے اپنے اہل پر سال بھر خرچ کرتے پھر بقیہ کر اللہ کے راہ میں خرچ کر دیتے۔ اور اگر جاندار نہیں رکھتا عیال کے لیے اتنا پس انداز کرنا کہ اگر یہ مر جائے تو وہ اس بقیہ سے منتفع ہوں اور انھیں بھیک مانگنی نہ پڑے افضل ہے۔
(صحیح الماری کتاب الطلقات ، ج 2 ص 808 اللہ کی کتب خانہ کراچی)
اور اس کی مقدار جو ان کے لیے چھوڑ نا مناسب ہے ہمارے امام رضی اللہ تعالی عنہ سے چار ہزار درہم مروی ہے یعنی ہر ایک کو اتنا حصہ پہنچے، اور امام ابوبکر فضل سے دس ہزار درہم، اور اگر ان کے حصے مختلف ہیں تو لحاظ اس کا کیا جائیگا جس کا حصہ سب سے کم ہے، اور اس سے زیادہ پھر (اس سے زیادہ جمع کرنا ) ہوس ہے۔ ہاں اگر عیال خود غنی ہوں تو پس انداز نہ کرنا ہی افضل، یونہی اگر فاسق ہوں کہ مال معصیت میں خرچ کریں گے تو اُن کے لیے کچھ نہ چھوڑنا ہی بہتر۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 311 تا 326