:سوال
زید کہتا ہے کہ نمازی کے سامنے دیوار قبلہ پر لکھائی وغیرہ کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس سے نمازی کا دل بٹتا ہے، کیا یہ درست ہے؟
:جواب
بیشک دیوار قبلہ میں عام مصلیوں ( نمازیوں) کے موضع نظر تک کوئی ایسی چیز نہ چاہئے جس سے دل بٹے اور ہو تو کپڑے سے چھپادی جائے ۔ احمد وابود او د عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی
ان النبي صلى الله تعالى عليه وسلم دعاه بعد دخوله الكعبة فقال انى كنت رأيت قرنى الكبش حين دخلت البيت فنسيت ان أمرك ان تخمرها فخمرهما فانه لا ينبغي ان يكون في قبلة البيت شئ يلهي المصلی
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کعبہ معظمہ میں تشریف فرما ہوئے عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کلید بردار کعبہ کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا: ہم نے کعبہ میں دینے کے سینگ ملاحظہ فرمائے تھے ( دنبہ کہ سیدنا سمعیل علیہ الصلاۃ والسلام کا فدیہ ہوا اس کے سینگ کعبہ معظمہ کی دیوار غربی میں لگے ہوئے تھے ) ہمیں تم سے یہ فرمانا یا دنہ رہا کہ ان کو ڈھانک دو اب ڈھانکو کہ نمازی کے سامنے کوئی چیز ایسی نہ چاہئے جس سے دل بٹے۔
(مسند امام احمد بن حنبل ، ج 5 ص 380 مطبو عہ دار الفکر، بیروت)
مزید پڑھیں:معانقہ (گلے ملنا) کس کس صورت میں جائز ہے؟
ہاں اگر اتنی بلندی پر ہو کہ سر اٹھا کر دیکھنے سے نظر آئے تو یہ نمازی کا قصور ہے، اسے آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا کب جائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
( لينتهين اقوام يرفعون ابصار هم الى السماء في الصلوة اولتخطفن ابصار هم )
ترجمہ: وہ جو نماز میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں یا تو اس سے باز آئیں گے یا ان کی نگاہ اچک لی جائیگی یعنی واپس نہ آئے گی اندھے ہو جائیں گے۔
(صحیح مسلم، ج 1، ص 681، نورمحمد اصح المطابع، کراچی)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 121