:سوال
شہر علی گڑھ کی عید گاہ کی صد ہا سال سے بنی ہوئی ہے اور حضرات علماءمتقدمین ( پہلے کے علماء ) بلاکراہت اس میں عیدین کی نمازیں پڑھتے پڑھاتے رہے، آج کل نئی روشنی والوں نے اپنے قیاسات اور انگریزی آلات سےیہ تحقیق کی ہے کہ سمت قبلہ سے منحرف ہے لہذا اس کو توڑکر سمت ٹھیک کرنا مسلمانان شہر پر استطاعت کی صورت میں لازم اور فرض ہے ورنہ نماز اس میں مکروہ تحریمی ہے، اور ، 10دسمبر کو ایک فتوی چھایا جس کی عبارت یہ ہے
اگر وہاں کے مسلمانوں میں اس قدر مالی طاقت ہے کہ اس کو شہید کر کے ٹھیک سمت قبلہ پر بنا سکتے ہیں تو ان کے ذمے فرض ہے کہ وہ ایسا ہی کریں اگر ان میں ٹھیک سمت قبلہ بنانے کی طاقت نہیں تو ان کے ذمہ فرض ہے کہ وہ اس مسجد یا عید گاہ میں ٹھیک سمت قبلہ کی خطوط کھینچ لیں اور ان خطوط پر کھڑے ہو کر نماز پڑھا کریں، چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے ”ومن كان غائبا ففرضه اصابته جهتها هو الصحيح لان التكليف بحسب الوسع ” جو شخص کعبہ سے دور ہو اس پر نماز کے دوران سمت کعبہ کی طرف رخ کرنا فرض ہے یہی صحیح ہے کیونکہ تکلیف حسب طاقت ہوتی ہے۔
کتب معتبرہ سے یہ ارشاد فرما ئیں کہ اسکا سمت قبلہ درست کرنا ضروری ہے یا کیا ؟
: جواب
فوائے مذکورہ محض باطل اور حلیہ صدق و صحت (سچ اور صحت کے زیور ) سے عاطل ( خالی ) اور منصب افتاپر نرا اجترا بلکہ شریعت مطہرہ پر کھلا افتراء ہے۔
اولا
( پہلی بات تو یہ ہے کہ ) اگر بفرض باطل یہ عید گاہ جہت قبلہ سے بالکل خارج ہوتی بلکہ مشرق و مغرب بدل گئے ہوتے جب بھی یہ جبروتی حکم کہ بحالت استطاعت اسے توڑ کر ٹھیک سمت قبلہ بنانا فرض ہے، دل سے نئی شریعت ایجاد کرنا تھا اس حالت پر غایت یہ کہ اگر بے انہدام ( بغیر گرائے ) کوئی چارہ کار ممکن نہ تھا منہدم کرنا مطلوب ہوتا ٹھیک سمت پر بنانا۔۔ کس نے فرض مانا عید گاہ میں کوئی عمارت ہونا ہی سرے سے خدا اور رسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرض کیا نہ واجب نہ سنت ، زمانہ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں مصلائے عید کف دست میدان ( ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح خانی میدان ) تھا جس میں اصلا کسی عمارت کا نام نہ تھا۔
جب حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نماز عید کو تشریف لے جاتے مواجہ اقدس میں ( سامنے ) سترہ کے لئے ایک نیزہ نصب کر دیا جاتا ، زمانہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین میں بھی یوں ہی رہا۔ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے سب مواضع میں تبرک کے لئے مسجدیں بنا ( تعمیر ) کیں ظاہرا انہیں کے وقت میں مصلائے عید میں بھی عمارت بنی۔ صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے۔ ”ان النبی صلی اللہ تعالى عليه وسلم كان تر كزله الحربة قد امه يوم الفطر والنحر ثم يصلى ” ترجمہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے سامنے عید الفطر کے مواقع پر نیز و نصب کیا جاتا پھر آپ نماز پڑھاتے۔
سنن ابن ماجہ میں وسیح ابن خزیمہ ومستخرج اسمعیلی میں زا ئد کیا” وذلك ان المصلي كان فضاء ليس فيه شيء يستتر به ” ترجمہ یہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ عید گاہ فضاء میں تھی وہاں کوئی ایسی چیز تھی جسے ستر اپنایا جا سکے۔ افسوس کہ نئی روشنی کا یہ فرض ، زمانہ رسالت وزمانہ خلافت سب میں متروک رہا۔
مزید پڑھیں:مسجد کا محراب بالکل قبلہ رخ نہ ہو تو نماز کا حکم؟
ثانياً
( دوسر ی بات یہ کہ ) اس عید گاہ کی عمارت موجود و سے دین الہی کو کوئی ایسا ضر ر شدید پہنچتا ہے جس کے سبب اس کا ڈھانا فرض ہو یا نہیں ، اگر نہیں تو بحال استطاعت مالی اُس کا ہدم ( گرانا ) کیوں فرض ہوا اور اگر ہاں تو بحال عدم استطاعت مالی کیوں فرض نہیں ، استطاعت مالی بنانے کو چاہئے ڈھانے میں ایسا کیا درکار ہے جس سے مسلمانانِ شہر عاجز ہوں ۔
ثالثاً
( تیسری بات یہ کہ ) خطوط سمت قبلہ ڈال لینے سے کار براری ( کام ہو جانا) ممکن اور وہ ضرر مندفع (ختم ہو جاتا )ہے یا نہیں ، اگر نہیں تو بحال عدم استطاعت یہ لغو حرکت فرض ہوئی اور کس نے فرض کی ، اور اگر ہاں تو بحال اسطاعت یوں کار براری کس نے حرام کی کہ باتعیین ڈھادینا ہی فرض ہو گیا۔
رابعاً
( چوتھی بات یہ کہ یہ عید گاہ سمت ( قبلہ ) سے یکسر ( بالکل ) خارج ہے یا حدود جہت کے اندر ہے اگر چہ عین محاذات سے منحرف ہے بر تقدیر اول اس میں نماز مکروہ تحریمی کیوں ہوئی باطل محض ہونی لازم تھی بر تقدیر ثانی اس کا ڈھانا کیون فرض ہوا جبکہ وہ حدود مشروع کے اندر ہیں۔
مزید پڑھیں:امام کا محراب اور (دو ستونوں کے بیچ )میں کھڑا ہونا کیسا؟
خامسا
( پانچویں بات یہ کہ) علماء کرام کا حکم تو یہ ہے کہ جہت سے بالکل خروج ہو تو نماز فاسد اور حدود جہت میں بلا کراہت جائز کے افاقی (مکہ سے باہر والے) کا قبلہ ہی جہت ہے نہ کہ عصابت عین (یعنی عین سامنے منہ کرنا ضروری نہیں ہے صرف جہت قبلہ کو منہ کرنا کافی ہے) جب تک 45 درجے انحراف نہ ہو چاہت قبلہ باقی رہتی ہے ہاں حتی الوسع( جتنا ہو سکے) اصابت این سے قرب مستحب اور ترک مستحب مستلزم کراہت تنزیہ بھی نہیں کراہت تحریم تو بڑی چیز تو اس میں نماز مکروہ تحریمی ٹھہرانا نئی روشنی کی محض ظلماتی ساخت ہے۔
سادسا
(چھٹی بات یہ کہ) عبارت ہدیہ کے فتوی مذکورہ نے نقل کی اس کے مدعا سے اصلا مس نہیں رکھتی بلکہ حقیقتہ وہ اس کار د ہے عبارت کا مطلب یہ ہے کہ غیر مکی کو ہرگز ضرورنہیں کہ اس کی توجہ عین کعبہ معظمہ کی طرف ہو بلکہ اس جہت کی طرف منہ ہونا بس ہے جس میں کعبہ واقع ہے تکلیف بقدر وسعت اور بحسب طاقت ہے اس سے خود ثابت ہوا کہ غیر مکہ مکرمہ میں اتنا انحراف کے جہت سے خارج نہ کرے مضر(نقصان دہ) نہیں اور اس کی تصریح نہ صرف ہدیہ بلکہ عامہ کتب مذہب میں ہے پھر مسافت بعیدہ میں ایک حد تک کثیر انحراف بھی جہت سے باہر نہ کرے گا اور درحق نماز (نماز کے حق میں) قلیل ہی کہلائے گا اور جتنا بعد (فاصلہ )بڑھتا جائیگا انحراف زیادہ گنجائش پائے گا۔
مزید پڑھیں:اکیلے نماز پڑھنے والے کا محراب یا در میں کھڑا ہونا کیسا؟
سابعا
اکابر نے بھی فرمایا کہ جو مسجد مدتوں سے بنی ہو اور اہل علم و عائمہ مسلمین اس میں بلا نکیر نماز پڑھتے رہے ہوں جیسا کہ عید گاہ مذکورہ کی نسبت سوال میں مسطور ہے اگر کوئی فلسفی اپنے آلات واقیاسات کی رو سے اس میں شک ڈالا چاہے اس کی طرف التفات نہ کیا جائے گا کہ صدہا سال سے علماء وسائر مسلمین کو غلطی پر مان لینا نہایت سخت بات ہے بلکہ تصریح فرماتے ہیں کہ ایسی قدیم محرابیں خود ہی دلیل قبلہ ہیں جن کے بعد تحری کرنے اور اپنا قیاس لگانے کی شرعاً اجازت نہیں ایسی تشکیک بعض مدعیان ہیات نے بعض محرابات نصب کردہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں بھی پیش کی حالا نکہ بالیقین صحابہ کرام کا علم زائد تھا اس کے بعد فلسفی ادا کا سننا بھی حلال نہیں۔
ہاں بتحقیق معلوم ہو کہ فلاں محراب کسی جاہل ناواقف نے یونہی جز افا (اندازے سے) قائم کر دی ہے تو البتہ اس پر اعتماد نہ ہوگا علامہ خیر الدین رملی استاد صاحب در مختار رحمھما اللہ تعالی فتاوی خیر یہ میں فرماتے ہیں ”نحن علی علم بان الصحابت رضي الله عنهم اعلم من غيرهم فاذا علمنا انهم وضعوا محرابا لا يعارضهم من هو دونهم. واذا علمنا ان محرا با وضع من غيرهم بغير علم لا نعتمديه والالم تعرف شيئا وعلمنا كثرة المارين و تو الى المصلين على مرور السنين علمنا بالظاهر وهو الصحة ترجمہ ہمیں یقین ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم دیگر تمام افرادامت سے زیادہ علم رکھتے تھے ، جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ محراب صحابہ نے قائم کئے ہیں تو ان کے مقابل کسی دوسرے کی بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
(لہذا اس محراب پر اعتماد کیا جائے گا) اور جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ صحابہ کے علاوہ کسی جاہل نا واقف نے یہ محراب بنائی تو اس پر ہم اعتماد نہیں کریں گے، اور اگر کسی محراب کے بارے میں ہمیں کچھ معلومات نہ ہوں صرف اتنا جانتے ہوں کہ یہاں کئی سالوں سے کثیر راہ گیر اور نمازی مسلسل نماز پڑھتے رہے ہیں تو ہم اسی ظاہر صورت پر عمل کریں گے اور یہی درست ہے پھر علماء کے یہ ارشادات اس بارے میں تھے جو فن بیات کا ماہر کامل عامل فاضل ثقہ عادل ہو یہ نئی روشنی والے نہ فقہ سے مس نہ ہئیات سے خبر ، اور دین و دیانت کا حال روشن تر، ان کی بات کیا قابل التفات ۔ (اس کے بعد امام اہلسنت علیہ الرحمۃنے نئی روشنی والوں کی ہیات دانی کی دھجیاں بکھیریں، اور ثابت کیا کہ عید گاہ مذکورہ ضرور حد دو جہت کے اندر ہے )۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 70 تا 72