زکوۃ تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کرنا کیسا ہے؟
:سوال
زکوۃتھوڑی تھوڑی کر کے ادا کرنا کیسا ہے؟
:جواب
اگرزکوۃپیشگی ادا کرتا ہے یعنی ہنوز (ابھی تک ) حولان حول نہ ہوا ( سال نہ گذرا) کہ وجوب ادا ہو جاتا ، خواہ یوں کہ ابھی نصاب نامی فارغ عن الحوائج ( حاجت سے زائد) کا مالک ہوئے سال تمام نہ ہوا، یا یوں کہ سال گزشتہ کی دے چکا ہے اور سال رواں ہنوز ختم پر نہ آیا تو جب انتہائے سال نہ ہو بلا شبہ تفریق و تدریج ( تھوڑا تھوڑا ، جدا جدا کر کے دینے ) کا اختیار کامل رکھتا ہے جس میں اصلاً کوئی نقصان نہیں کہ حولان حول ( سال گذرنے) سے پہلے زکوۃ واجب الادا نہیں ہوتی ۔ تو ابھی شرع اس سے تقاضا ہی نہیں فرماتی ، یکمشت ( اکٹھی ) دینے کا مطالبہ کہاں سے ہوگا، یہ پیشگی دینا تبرع ہے۔ اور اگر سال گزر گیا اور زکوۃ واجب الادا ہو چکی تو اب تفریق و تدریج ممنوع ہوگی بلکہ فورا تمام و کمال زر واجب الادا ادا کرے کہ مذہب صحیح و معتمد مفتی بہ پر ادائے زکوۃ کا وجوب فوری ہے جس میں تاخیر باعث گناہ۔ ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالی عنہم سے اس کی تصریح ثابت ۔
بلکہ ہمارے بہت ائمہ نے تصریح فرمائی کہ اس (زکوۃ ) ادائیگی میں دیر کرنے والا مردود الشہادۃ ہے، یہی منقول ہے
محرر مذہب سیدنا امام محمد رحمہ اللہ تعالی سے۔
اور شک نہیں کہ تدریج ( تھوڑی تھوڑی دینے) میں اگر گل کی تاخیر نہ ہوئی تو بعض کی ضرور ہو گی حالانکہ اس پر واجب تھا کہ کل مطالبہ فی الفور ادا کرے۔
پھر بعد وجوب ادا تدریج کی مضرت (نقصان) اظہر مین الشمس ( سورج سے زیادہ روشن ) کہ مذہب صحیح پر ترک فور کرتے ہی گناہ گار ہوگا اور مذہب تراخی پر بھی تدریج نا مناسب کہ تاخیر میں آفات ہیں، ظاہر ہے کہ وقت موت معلوم نہیں، ممکن ہے کہ پیش از ادا ( ادا کرنے سے پہلے ) آجائے تو بالا جماع گناہگار ہوگا۔
اسی طرح تدریج میں اور دقتیں بھی محتمل ، اور مالی و جانی حوادث سے محفوظ بھی رہا تو نفس پر اعتماد کے ہے
فان الشيطان يجرى من الانسان مجرى الدم
مزید پڑھیں:کسی کو قرض دیا اور وہ منکر ہو گیا اب اس مال پر زکوۃ ہوگی؟
(شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے ، ممکن کہ بہکاوے اور آج جو قصد ادا ہے کل یہ بھی نہ رہے۔ سیدنا امام ابن الامام کریم ابن الکرام حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ نے ایک قبائے نفیس بنوائی ، طہارت خانے میں تشریف لے گئے، وہاں خیال آیا کہ اسے راہ خدا میں دیجئے فورا خادم کو آواز دی، تقریب دیوار حاضر ہوا، حضور نے قبائے معلی اتار کر دی کہ فلاں محتاج کو دے آ۔ جب باہر رونق افروز ہوئے خادم نے عرض کی اس درجہ تعجیل کی وجہ کیا تھی؟ فرمایا کیا معلوم تھا یا ہر آتے آتے نیت میں فرق آجاتا ۔ سبحان اللہ یہ ان کی احتیاط ہے جو
اِنَّ عِبَادِيَ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَان
ترجمہ: بلا شبہ میرے بندوں پر تیری حکومت نہیں چلے گی ۔ ) کی آغوش میں پلےاور
(اِنَّمَا يُرِ يدَ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمُ تطهير ا)
(ترجمہ: اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اےاہلنیتِ نبوی !تم سے پلیدی کو دور کرے اور تمھیں خوب پاک فرمادے۔)
دریا میں نہائے دھلے –
صلى الله تعالى على ربھم الكريم الأكراء وعليهم اجمعين وبارک وسلم
ترجمہ: ان کے والد گرامی پر اللہ تعالی کی رحمتیں ہوں اور ان تمام پر بھی اور برکات و سلام ہوں اور ان تمام پربھی اور برکات و سلام ۔ او پھر ہم کہ گره دست شیطان (شیطان کے ہاتھوں مسخر) ہیں، کسی امید پر بے خوف و مطلق العنان ہیں۔
مزید پڑھیں:کیا قرض دیئے ہوئے مال میں بھی زکوۃ واجب ہوگی؟
میرے نزدیک چند یا تیں لوگوں کو تدریج پر حامل ہوتی ہیں، کبھی یہ خیال کہ اہم قالا ہم میں صرف کریں یعنی جس وقت جس حاجتمند کو دینا زیادہ مناسب سمجھیں اُسے دیں ۔ کبھی یہ کہ سائل بکثرت آتے ہیں یہ چاہتا ہے مال زکوۃ ان کے لئے رکھ چھوڑے کہ وقتا فوقتا دیا کرے کبھی یکمشت دیتا ذ رانفس پر بار ہے اور تھوڑا تھوڑا نکلتا جائے گا تو معلوم نہ ہوگا۔ جنھیں یہ خیال ہوں اُن کے لئے راہ یہی ہے کہ زکوۃ پیشگی دیا کریں مثلاً ماہ مبارک رمضان میں اُن پر حولان حول ( سال پورا) ہوتا ہے تو 8 ہجری کے رمضان کے لئے 7 ہجری کے شوال سے دینا شروع کریں اور ختم سال تک بتدریج حسب رائے و مصلحت دیتے رہیں کہ اس میں ان کے مقاصد بھی حاصل ہوں گے اور تدریج مذموم و ممنوع سے بھی بچیں گے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 75 تا 84

READ MORE  کسی کے پاس ضرورت سے زیادہ مکانات ہوں تو ان پر زکوۃ کا حکم؟

نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top