بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ مقبرہ وقبرستان میں نماز مکروہ ہے، اس سے کیا مراد ہے؟
:سوال
بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ مقبرہ وقبرستان میں نماز مکروہ ہے، اس سے کیا مراد ہے؟
:جواب
اس میں بھی اصل منشائے کراہت قبر ہے اور اس کی تحلیلیں ہمارے علمائے حنفیہ ہی نے تین طور پر کی ہیں
ایک تشبہ اہل کتاب دوسرے یہ کہ عبادت اصنام ( بتوں کی عبادت) اسی طرح پیدا ہوئی تیسرے محل نجاسات ہونا
جیسے شیخ محقق نے اختیار فرمایا
ظاہر ہے کہ پہلی دو تعلیلیں صرف اس صورت کی کراہت بتاتی ہیں کہ نماز قبر کی طرف ہو کہ دہنے بائیں یاقبرکوپیچھےلےکرعبادت ہےنہ تشبیہ یہود
وانا اقول وباللہ التوفیق
(اور میں اللہ تعالی کی توفیق کے ساتھ کہتا ہوں )
مزید پڑھیں:بعد دفن میت قبر پر آذان دینا جائز ہے یا نہیں؟
تحقیق یہ ہے کہ عامہ مقابر میں ہر جگہ مظنہ قبر ہے مگر یہ کہ کوئی محل ابتدا سے دفن ہونے سے محفوظ رہا ہو اور معلوم ہو کہ یہاں دفن واقع نہ ہوا، ولہذا ہمارے علما نے تصریح فرمائی کےمقبرہ میں جو نیا راستہ نکالا گیا ہو اس میں چلنا حرام ہے کہ قبور مسلمین کی بے ادبی ہوگی ۔
پھر قبریں کھودنے میں بطن زمین کی مٹی او پر آتی ہے اور وہ اکثر وہی ہوتی ہے جو پہلے گلے ہوئے اجسام کی نجاسات ، سے متنجس ہو چکی اور بند کرنے میں سب مٹی صرف نہیں ہو جاتی تو جا بجا متنجس مٹی کا پھیلا ہونا مظنون ہوتا ہے اور منہ قبر ( قبر کاگمان ہونا ) ومظنہ نجاست دونوں کراہت تنزیہہ کیلئے کافی ہیں
ظن اگر غالب ہوتا جو فقہیات میں ملحق بیقین ہے تو بوجہ علت اول حکم کراہت تحریم ہوتا اور بوجہ علت ثانی بغیر کچھ بچھائے بطلان نماز کا ل دیا جا تا ازانجاکہ اس احد کا نہیں صرف کراہت تنزیہہ رہی اوراب یہ حکم حکم صلاة على القبر (قبر پرنماز) اور الی القبر ( بر طرف نماز) سے جدا پیدا ہوا کہ اس میں پیچھے یا آگے کسی قبر کا معلوم ہونا ضرور نہیں قبور معلومہ اگر چہ دہنے بائیں یاپیچھے ہوں جبکہ یہ زمین ایسی ہے جس میں قبرو نجاست کامظنہ ہے حکم کراہت دیا جائے گا یہی محمل ہے اس کلام کا جو علامہ طحطاوی نے حاشیہ مراقی الفلاح میں زیر قول شرنبلالی تکره الصلاة في المقبر تہ نقل فرمایا
سواء كانت فوقه او خلفه او تحت ما هو واقف علیہ “
برابر ہے کہ مقبرہ اس کے اوپر ہو یا پیچھے ہو یاجس چیز پر یہ کھڑا ہے اس کے نیچے ہو)۔
اور یہی منشا ہے اطلاق متون کا ورنہ اگر مقبرہ میں کوئی جگہ صاف و پاک ہو کہ نہ اُس میں قبر ہو نہ مصلی کا قبر سے سامنا ہو تو وہاں نماز ہرگز مکروہ نہیں خانیہ و منیہ وزاد الفقیر امام ابن الہمام و حلیہ وغنية و بحرالرائق و شرنبلالی علی الدر وحلبی و طحطاوی وردالمختار وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے
” لاباس بالصلاة فيها اذا كان فيها موضع اعد للصلاة وليس فيه قبر ولانجاسة
مقبرے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر وہاں کوئی جگہ نماز کے لئے تیار کی گئی ہو اور اس میں قبر اور نجاست نہ ہو ۔
مزید پڑھیں:مسجد میں بارش کے لئے آذان کہنا درست ہے یا نہیں؟
زاد الفقیر کی عبارت یہ ہے
تكره الصلاة في المقبره الا ان يكون فيها موضع اعد للصلاة لانجاسة فيه ولا قذر فیہ
مقبرے میں نماز مکروہ ہے لیکن اگر وہاں نماز کے لئے کوئی جگہ تیار کی گئی ہو جس میں نجاست اور گندگی نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے
اس تحقیق سے (پتا چلا کہ) قبر پر نماز مطلقا مکروہ ہے اور قبر کی طرف بھی جبکہ قبر موضع سجود میں مطلقا یا گھر یا مسجد صغیر میں جانب قبیلہ بلا حائل ہو اور اس کے لئے کچھ بہت سے قبور ہونا در کار نہیں، تنہا ایک ہی قبر ہو جب بھی یہی حکم ہے اور قبر دہنے یا بائیں یاپیچھے ہو اور زمین جہاں نماز پڑھتا ہے پاک وصاف ہو تو اصلا کراہت نہیں،
یہ حکم حضرت شیخ محقق نے نہ اپنی طرف سے لکھا نہ علمائے حنفیہ کے قول کے خلاف بلکہ عامہ کتب حنفیہ میں اس کی صاف تصریح ہے جیسا کہ گزرا اور جب اس میں کراہت ہی نہیں تو سترہ کی کیا حاجت
اور مقابر میں جہاں مردے دفن ہوتے چلے آئے ہیں اور ان میں قبر یا نجاست کا مظنہ ہے نماز مطلقا مکروہ ہے اگر چہ قبور معلومہ پیچھے ہی ہوں مگر اُس صورت میں کہ کوئی زمین پاک صاف معلوم ہو اور اس کے قبلہ میں قبر بلا حائل بمعنی مذکور نہ ہوں

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 356

READ MORE  غنی امام جو صدقہ فطر لے اسکے پیچھے نماز کا حکم؟
مزید پڑھیں:آذان کے بعد صلاۃ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top