کیا ضعیف حدیث قابل حجت ہے؟
:سوال
آپ فرمارہے ہیں کہ ضعیف حدیث حجت ہے حالانکہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ ضعیف احادیث احکام حلال و حرام میں قابل استدلال نہیں ۔
:جواب
حدیث ضعیف سے فضائل اعمال میں استحباب یامحل احتیاط میں کراہت تنزیہ یا امر مباح کی تائید اباحت پر استناد کرنا اُسے احکام میں حجت بنانا اور حلال و حرام کا مثبت ٹھہرانا نہیں کہ اباحت تو خود بحکم اصالت ثابت اور استحباب مزہ (بچنے کا مستحب ہونا ) قواعد قطعیہ شرعیہ وارشاد القدس” كيف وقد قيل ” وغيره احادیث صحیحہ سے ثابت جس کی تقریر سابقا زیور گوش سامعان ہوئی ( سامعین کے کانوں کی زینت بنی ) ، حد یث ضعیف اس نظر سے کہ ضعف سند مستلزم غلطی نہیں ممکن کہ واقع میں صحیح ہو صرف امید و احتیاط پر باعث ہوئی، آگے حکم استحباب وکراہت ان قواعد و صحاح نے افادہ فرمایا اگر شرع مظہر نے جلب مصالح ( مصالح کے حصول ) و سلب مفاسد ( مفاسد کو دور کرنے ) میں احتیاط کو مستحب نہ مانا ہوتا ہرگز ان مواقع میں احکام مذکورہ کا پتا نہ ہوتا تو ہم نے اباحت ، کراہت مند و بیت (استحباب ) جو کچھ ثابت کی دلائل صحیحہ شرعیہ ہی سے ثابت کی نہ حدیث ضعیف سے۔
مزید پڑھیں:رمضان میں صبح کی آذان وقت سے پہلے دینا کیسا؟
اگر دلائل شرعیہ سے ایک امر کی حرمت ثابت ہو اور کوئی حدیث ضعیف اُس کے کسی فرد کی طرف بلائے مثلا کسی حدیث مجروح میں خاص طلوع و غروب یا استوا کے وقت بعض نماز نفل کی ترغیب آئی تو ہر گز قبول نہ کی جائے گی کہ اب اگر ہم اس کا استحباب یا جواز ثابت کریں تو اسی حدیث ضعیف سے ثابت کریں گے اور وہ صالح اثبات نہیں یونہی اگر دلائل شرعیہ مثبت ندب یا اباحت ہوں اور ضعاف میں نہی آئی اس وجہ سے مفید حرمت نہ ہوگی مثلاً مقرر اوقات کے سوا کسی وقت میں ادائے سخن یا معین رشتوں کے علاوہ کسی رشتہ کی عورت سے نکاح کو کوئی حدیث ضعیف منع کرے حرمت نہ مانی جائے گی ورنہ ضعاف کی صحاح پرترجیح لازم آئے بحمد اللہ یہ معنی ہیں کلام علماء کے کہ حدیث ضعیف در باره احکام حلال و حرام معمول بہ نہیں ۔
اصل یہ ہے کہ مثبت وہ جو خلاف اصل کسی شے کو ثابت کرے کہ جو بات مطابق اصل ہے خود اسی اصل سے ثابت ،ثابت کیا محتاج اثبات ہوگا ولہذا شرع مطہر میں گواہ اس کے مانے جاتے ہیں جو خلاف اصل کا مدعی ہو اور ماورائے دماء و فروج ومضار و خبائث تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے تو ان میں کسی فعل کے جواز پر حدیث ضعیف سے استناد کرنا حلت غیر ثابتہ کا اثبات نہیں بلکہ ثابتہ کی تائید ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 521

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 05, Fatwa 381
مزید پڑھیں:تیجہ، دسواں، چہلم، ششماہی اور برسی جائز ہے یا نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top