حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی آذانیں کہاں ہوتی تھیں
:سوال
حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی آذانیں کہاں ہوتی تھیں آیا پہلی اذان جو ہوتی ہے وہ کہاں ہوتی تھی اور دوسری جو اس زمانے میں وقت خطبہ خطیب کے سامنے قریب ممبر ہوتی ہے وہ کہاں ہوتی تھی اور اگر حضور اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی اذان علی باب المسجد ہوتی تھی تو دوسری جو خطیب کے سامنے قریب ممبر ہوتی ہے وہ کس کے حکم سے شروع ہوئی
:جواب
زمانہ ہے اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں صرف ایک اذان ہوتی تھی جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف فرما ہوتے حضور کے سامنے مواجہہ اقدس میں مسجد کریم کے دروازے پر
زمانہ اقدس میں مسجد شریف کے صرف تین دروازے تھے
ایک مشرق کو جو ہجرہ شریفہ کے متصل تھا جس میں سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس کی سمت پر اب باب جبریل ہے
دوسرا مغرب میں جس کی سمت پر اب باب الرحمتہ
تیسرا شمال میں جو خاص محاذی ممبر طہر تھا اس پر اس دروازے پر اذان جمعہ ہوتی تھی کہ ممبر کے سامنے بھی ہوئی اور مسجد سے باہر بھی
زمانہ صدیق اکبر وعمر فاروق وابتدائے خلافت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہم میں یہی ایک اذان ہوتی رہی جب لوگوں کی کثرت ہوئی اور شتابی (جلدی) حاضری میں قدرے کسل واقع ہوا( سستی واقع ہوئی) امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک اذان شروع خطبہ سے پہلے بازار میں دلوانی شروع کی مسجد کے اندر اذان کا ہونا ائمہ نے منع فرمایا اور مکروہ لکھا ہے اور خلافت سنت ہے نہ زمانہ اقدس میں تھا نہ زمانہ خلفاء راشدین نہ کسی صحابی کی خلافت میں نہ تحقیق معلوم یہ کہ بدعت کب سے ایجاد ہوئی نہ ہمارے ذمہ اس کا جاننا ضروربعض کہتے ہیں کہ ہشام بن عبدالملک مروانی بادشاہ ظالم کی ایجاد ہے واللہ تعالی اعلم
بہرحال جبکہ زمانہ رسالت و خلافت ہائے راشدہ میں نہ تھی اور ہمارے ائمہ نے تصریح ہے کہ مسجد میں اذان نہ ہو مسجد میں اذان مکروہ ہے تو ہمیں سنت اختیار کرنا چاہیے بدعت سے بچنا چاہیے اور اس تحقیقات سے پہلے کہ سنت پہلے کس نے بدلی اللہ تعالی ہمارے بھائیوں کو توفیق دے کے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلوۃ وا لتسلیم دی سنت اور اپنے فقہائے کرام کے احکام پر عامل ہوں اور ان کے سامنے رواج کی آڑ نہ لے

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 405

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 541 to 554
مزید پڑھیں:آذان دینے کی جگہ کے احکام
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top