:سوال
اذان مسجد کے اندر دینا کیسا ہے؟ جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد جو دی جاتی ہے آیا وہ اذان مسجد کے اندر خطیب کے سامنے کھڑا ہو کر کہے یا مسجد کے باہر ؟ ھدایہ، درمختار اور شامی میں ہے کہ مؤذن اذان خطیب کے سامنے مسجد میں کہے ، اس سے پتا چلتا ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر دی جائے ۔اس کے علاوہ ہمیشہ سے لوگ یہ اذان مسجد میں دیتے آئے ہیں لہذا اس پر توارث ہے۔
:جواب
ہمارے علمائے کرام نے فتاوی قاضی خان و فتادی خلاصہ فتح القدیر و نظم و شرح نقایہ بر جندی و بحر الرائق و فتاوی ہندیہ و طحطاوی علی مراقی الفلاح و غیر ہا میں تصریح فرمائی کہ مسجد میں اذان دینی مکروہ ہے۔ دلائل دینے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں ) یہ تمام ارشادات صاف صاف مطلق بلا قید ہیں جن میں جمعہ وغیر ہاکس کی تخصیص نہیں، مدعی تخصیص پر لازم کہ ایسے ہی کلمات صریحہ معتمدہ میں اذان ثانی جمہ کا استثناء دکھائے مگر ہرگز نہ دکھا سکے گا ر ہا لفظ بین یدی الامام (امام کے سامنے ) یا بین یدی المنبر ( منبر کے سامنے) سے استدلال مذکور فی السوال وہ محض نا واقعی ہے،
ان عبارات کا حاصل صرف اس قدر کہ اذان ثانی خطیب کے سامنے منبر کے آگے مواجہہ میں ( سامنے ) ہو، اس سے یہ کہاں کہ امام کی گود میں منبر کی کگر پر ہو جس سے داخل مسجد ہونا استنباط کیا جائے بین یدی (یعنی سامنے ) سمت مقابل میں منتہائے جہت تک صادق ہے جو وقت طلوع مواجہہ مشرق یا ہنگام غروب مستقبل مغرب کھڑا ہو وہ ضرور کہے گا کہ آفتاب میرے سامنے ہے۔ یا فارسی میں مھر دوبرونےمن است ( سورج میرے چہرے کے سامنے ہے) یا عربی میں الشمس بین یدی ( سورج میرے سامنے ہے ، حالانکہ آفتاب اس سے تین ہزار برس کی راہ سے زیادہ دور ہے۔
مزید پڑھیں:دو خطبوں کے درمیان دعا کو حرام، بدعت سیئہ اور شرک کہنا کیسا؟
(مزید دلائل دینے کے بعد ارشاد فرمایا)
پس جو اذ ان در مسجد پر یا فنائے مسجد کی کسی زمین میں جہاں تک حائل نہ ہو محاذات امام میں دی جائے اُس پر ضرور بیسن بدیہ (اس کے روبرو) صادق ہے بلا شبہ کہا جائے گا کہ امام کے سامنے خطیب کے روبرو منبر کے آگے اذان ہوئی ، اور اسی قدر در کار ہے، غالباً خودمستد لین کو معلوم تھا کہ قریب مسجد ، بیرون مسجد، مواجہہ امام کو بھی بین ید یہ شامل ہے لہذا رو بر خطیب کہنے کے بعد، ان لفظوں کی حاجت ہوئی کہ مسجد کے اندر مگر خاص یہی لفظ کہ اصل مدعا تھے صرف اپنی طرف سے اضافہ ہوئے ۔ شامی وہدایہ ودرمختار وغیرہا میں کہیں اس کی بُوبھی نہیں۔ اب ہم ایک حدیث صحیح ذکر کریں جس سے اس بین یدیہ کے معنی بھی آفتاب کی روشن ہو جائیں اور اس ادعائے توارث کا حال بھی کھل جائے سنن ابی داؤد شریف میں بسند حسن مروی ہے
” حدثنا النفيلي ثنا محمد بن سلمة عن محمد بن اسحق عن الزهري عن السالب بن يزيد رضى الله تعالى عنه (( قال كان يؤذن بين يدى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم اذا جلس على المنبر يوم الجمعة على باب المسجد وابي بكر و عمر) ترجمہ نفیلی نے بیان کیا کہ محمد بن سلمہ نے محمد بن اسحق سے انہوں نے زہری سے انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب روز جمعہ منبر پر تشریف فرما ہوتے تو حضور ﷺکے رو برو اذان مسجد کے دروازے پر دی جاتی اور یونہی ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہا کے زمانے میں ۔
(سنن ابی داؤد ، ج 1 ، ص 155 ، آفتاب عالم پریس لاہور )
اس حدیث جلیل نے واضح کر دیا کہ اس رو بروئے امام پیش منبر کے کیا معنی ہیں اور یہ کہ زمانہ رسالت و خلفائے راشدین کے کیا متوارث ہے، ہاں یہ کہئے کہ اب ہندوستان میں یہ اذان متصل منبر کہنی شائع ہو رہی ہے مگر نص حدیث سے جُدا ، تصریحات فقہ کے خلاف کسی بات کا ہندیوں میں رواج ہو جانا کوئی حجت نہیں ۔ ہندیوں میں یہی کیا اور وقت کی اذانیں بھی بہت لوگ مسجد میں دے لیتے ہیں حالانکہ وہاں تو ان تصریحات ائمہ کے مقابل بین یدیہ وغیرہ کا بھی دھوکا نہیں، پھر ایسوں کا فعل کیا حجت ہو سکتا ہے۔ الحمد للہ یہاں اس سنتِ کریمہ کا احیاء رب عز و جل نے اس فقیر کے ہاتھ پر کیا ،
مزید پڑھیں:جمعہ کے دن خطبہ کے وقت نماز کا حکم اور مختار قول
میرے یہاں مؤذنوں کی مسجد میں اذان دینے سے ممانعت ہے، جمعہ کی اذان ثانی بحمد اللہ تعالیٰ منبر کے سامنے دروازہ مسجد پر ہوتی ہے جس طرح زمانہ اقدس حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم میں ہوا کرتی تھی ذلك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم والحمد لله رب العلمين، ترجمہ: یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے اور اللہ تعالی ہی کے لئے سب تعریف ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
فقیر بہ نیت خاکبوی آستانئہ علیہ حضرت سلطان الاولیاء محبوب الہی نظام الحق والدین رضی اللہ تعالی عنہ بریلی سے شد الرحال کر کے حاضر بارگاہ غیاث پور شریف ہوا تھا دہلی کی ایک مسجد میں نماز کو جانا ہوا، اذان کہنے والے نے مسجد میں اذان کہی فقیر نے حسب عادت کہ جو امر خلاف شرع مطہر پایا مسئلہ گزارش کر دیا اگر چہ اُن صاحب سے اصلاً تعارف نہ ہوا ان مؤذن صاحب سے بھی بہ نرمی کہا کہ مسجد میں اذان مکروہ ہے، کہا ، کہاں لکھا ہے؟ میں نے قاضی خان ، خلاصہ، عالمگیری ، فتح القدیر کے نام لئے ، کہا ہم ان کو نہیں مانتے فقیر سمجھا کہ حضرت طائفہ غیر مقلدین سے ہیں ، گزارش کی کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟
معلوم ہوا کہ کسی کچہری میں نوکر ہیں۔ فقیر نے کہا احکم الحاکمین جل جلالہ کا سا حقیقی در بار تو ارفع و اعلی ہے آپ انہیں کچہریوں میں روز دیکھتے ہوں گے چپراسی ، مدعی، مدعا علیہ گواہوں کی حاضری، کچہری کے کمرے کے اندر کھڑے ہو کر پکارتا ہے یا باہر؟ کہا باہر کہا اگر اندر ہی چلانا شروع کرے تو بے ادب ٹھہرے گایا نہیں؟ بولے اب میں سمجھ گیا۔ غرض کتابوں کو نہ مانا جب ان کی سمجھ کے لائق کلام پیش کیا تسلیم کر لیا۔
اقول وبالله التوفیق ( میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتا ہوں کہ ) یہاں دو نکتے اور قابل لحاظ وغور ہیں
: اول: اگر بانی مسجد نے مسجد بناتے وقت تمام مسجدیت سے پہلے مسجد کے اندر اذان کے لئے منابرہ خواہ کوئی محل مرتفع بنایا تو یہ جائز ہے، اور اتنا ٹکڑا اذان کے لئے جدا سمجھا جائے گا اور مسجد میں اذان دینے کی کراہت یہاں عارض نہ ہو گی جیسے مسجد میں وضو کرنا اصلاً جائز نہیں مگر پہلے سے اگر کوئی محل معین بانی نے وضو کے لئے بنوادیا ہو تو اس میں وضو جائز کہ اس قدر مستثنی قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر مناره یا مئذ نہ بیرون مسجد فنائے مسجد میں تھا بعدہ مسجد بڑھائی گئی ہو اور زمین متعلق مسجد مسجد میں لے لی کہ اب مئذ نہ ( منارہ ) اندرون مسجد ہو گیا
اس پر بھی اذان میں حرج نہ ہوگا کہ یہ بھی وہی صورت ہے کہ اس زمین کی مسجدیت سے پہلے اس میں یہ محل اذان کے لئے مصنوع ہو چکا تھا کما لا یخفی (جیسا کہ مخفی نہیں) ہاں اگر داخل مسجد کوئی شخص اگر چہ خود بانی مسجد نیا مکان اذ ان کے لئے مستثنی کرنا چاہے تو اُس کی اجازت نہ ہونی چاہئے کہ بعد تمامی مسجد کسی کو اس سے استثناء یا فعل مکروہ کے لئے بنا کا اختیار نہیں۔
دوم: متعلقات مسجد میں مسجد کے لئے اذان ہونے کو عرف میں یونہی تعبیر کرتے ہیں کہ فلاں مسجد میں اذان ہوئی مثلاً منارہ بیرون مسجد زمین خاص مسجد سے کئی گز کے فاصلے پر ہو اور اس پر اذان کہی جائے تو ہر شخص یہی کہے گا مسجد میں اذان ہوگئی نماز کو چلو ، یوں کوئی نہیں کہتا کہ مسجد کے باہر اذان ہوئی نماز کو اٹھو یہ عرف عام شائع ہے جس سے کسی کو مجال انکار نہیں۔ (یعنی اس طرح کے کلام اور عبارات سے مسجد میں اذان دینے پر دلیل نہیں پکڑ سکتے )۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 497