جنتری کے حساب سے روزہ رکھنا یا عید کرنا یا کسی دیگر ماہ کی تاریخ مقرر کرنا درست ہے؟
سوال
جنتری کے حساب سے روزہ رکھنا یا عید کرنا یا کسی دیگر ماہ کی تاریخ مقرر کرنا درست ہے؟
جواب
شریعت مطہرہ میں جنتری کا حساب اصلاً معتبر نہیں، درمختار میں ہے
و قول اولی التوقيت ليس بموجب
ترجمہ: اہل توقیت کا قول سبب وجوب نہیں بن سکتا۔
در مختار، ج 1، ص 148 مطبع مجتبائی ، ویلی)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
امة امية لا نكتب ولا نحسب)
ترجمہ: ہم امی ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتےہیں
صحیح بخاری ، ج 1 ، ص 256 تقدیمی کتب خانہ کراچی)
یہ ان کےبارے میں ہے جو واقعی ہیئت داں تھے نہ کہ آج کل کے جنتری والے جنہیں ہیئت کی ہوا بھی نہیں گئی، بڑے بڑے نامی جنتری دانوں کی نہایت واضح تقاویم شمسیہ میں وہ اغلاط فاحشہ دیکھے ہیں کہ مدہوش کے سوا دوسرے سے متوقع نہیں تا به حساب ہلال چه رسد حساب ہلال وہ دشوار چیز ہے جہاں اہل ہیئت کے مسلم امام بطلیموس نے گھٹنے ٹیک دئے محبطی میں ظہور و خفائے کو اکب و ثوابت تک کے لیے باب وضع کیا اور ظہور ہلال کو ہاتھ نہ لگایا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 380

مزید پڑھیں:29 کو اگر چاند نظر نہ آئے تو 30 دن پورے کرنا چاہئیں، یہ رمضان اور عید الفطر کے ساتھ خاص یا سب مہینوں کے لئے ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 758

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top