جنگل میں موجود اسٹیشن پر ملازم کے مسافر ہونے کی صورتیں
:سوال
ایک شخص جنگل یا اسٹیشن پر جو جنگل میں واقع ہے ملازم ہے اور اس کو اس کے آفیسر جب بھیجتے ہیں تو کم از کم ایک ماہ کے ارادہ سے بھیجتے ہیں تو اس ملازم پر نماز قصر ہے یا پوری ؟ زید کہتا ہےکہ ملازم کو ہر حالت میں نماز قصر پڑھنا چاہئے اگر چہ آ قا ایک ماہ کے ارادے سے بھیجے کیونکہ اگر آقا چاہے تو آٹھ روز میں دوسری جگہ منتقل کر دے، دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگل ہونے کی وجہ سے ہر حالت میں قصر واجب ہے کیونکہ وہاں آبادی نہیں ہے جو اقامت کی جگہ ہے، عمرو کی دلیل ہے کہ کام ارادے کے لحاظ پر ہوتے ہیں یعنی جس وقت آقا بھیجتا ہے تو ایک ماہ کے ارادے سے بھیجتا ہے پر وہ چاہے ایک روز میں بلالے اس حالت میں ارادے کی وجہ سے نماز قصر نہیں ہوئی ، دوسرے جس جنگل میں اقامت نہیں ہوتی وہ دوسرے جنگل ہیں اور ایسے جنگل یا اسٹیشن جو جنگل میں ہوں جہاں بیسں پچسیں انسان ہر وقت ہوں نیز ریلوے کے ملازم بھی اسٹیشن پر کام کرتے ہوں اقامت کو باطل نہیں کرتی ۔ ان میں قول کس کا درست ہے؟
:جواب
:یہاں چند امور پر اطلاع لازم جن سے بعو نہ تعالی انکشاف حکم ہو
:اول
اسٹیشن اگر چہ آبادی سے کچھ فاصلے پر ہوں وہاں عمارت ہوتی ہے سامان اقامت مہیا ہوتا ہے، ہاں اگر آبادی سے کوسوں دوری ہے جنگل میں متعین ہوں جیسے بن کی لکڑی لینے والے، تو وہ محل اقامت نہیں اگر چہ خیمے ڈیرے ساتھ ہوں مگر ان کے لئے جن کی طرز معیشت ہی یہ ہو جیسے سانسے ۔
:دوم
نرے جنگل میں کہ نیت اقامت صحیح نہیں، مدت سفر چل لینے کے بعد ہے کہ تین منزل (۱۲ کلومیٹر قطع کر چکا ہو، اب کسی جنگل میں دن یا زائد قیام کی نیت کرے تو مسافر رہے گا لیکن مدت سفر پوری ہونے سے پہلے جنگل میں بھی نیت اقامت صحیح ہے، مثلا تین منزل کے ارادے پر چلا تھا ایک یا دو منزل چل کر نیت سفر قطع کی اور وہاں اقامت کی نیت کر لی مسافر نہ رہا نماز پوری پڑھے گا اگر چہ بن میں ہو۔
: سوم
نوکر کی اپنی نیت معتبر نہ ہوئی بلکہ نیت آقا کا تابع ہونا اُس حالت میں ہے کہ آقا کے ساتھ ہو ورنہ خود اس کی نیت معتبر ہے۔
:چهارم
مجرد احتمال کہ شاید آج چلا جانا ہو منافی اقامت نہیں اور اپنے وطن کے سوا آدمی کبھی کہیں مقیم نہ ہو اگرچہ سال بھر اقامت کی نیت کرے کہ کیا معلوم شاید آج ہی کوئی ضرورت سفر کی پیش آئے بلکہ اس کے لئے غالب گمان درکار ہے یقین کی حاجت نہیں کہ بے اعلام بنی غیب پر یقین کی کوئی صورت نہیں۔
:پنجم
نیت سچے عزم قلب کا نام ہے، پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کرلے، اور جانتا ہے کہ اس سے پہلے چلے جانا ہے تو یہ نیت نہ ہوئی محض تخیل ہوا، یوں ہی دل میں عزم دو ہی منزل کا ہے اور گھر سے تین منزل کا ارادہ کر لیا کہ آبادی سے نکل کر راہ میں میں قصر کی اجازت مل جائے ہر گز اجازت نہ ہوگی کہ یہ نیت نہیں وہی خیال بندی ہے، البتہ اگر دو ہی منزل پر جاتا ہے اور سچا ارادہ تین منزل کا کر لیا اور تین منزل جا کر ایک منزل اپنے محل مقصود کو واپس آیا اور یہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہے تو جانے اور آنے اور ٹھہر تے قصر کرے گا کہ یہ سچی نیت ہوئی اگر چہ وہاں جانے سے کوئی کام نہ تھا۔
: ششم
وطن اقامت یعنی جہاں پندرہ دن یا زیادہ قیام کی نیت صحیحہ کرلی ہو آدمی کو مقیم کر دیتا ہے اور اقامت و سفر میں واسطہ نہیں تو وہاں سے بے ارادہ مدت سفر اگر ہزار کوس دورہ کرے مثلاً دس کوس کے ارادے پر وہاں سے چلے پھر وہاں سے پندرہ کوس کا ارادہ کرے وہاں سے بیسں کوس کا قصد ہو مسافر نہ ہوگا اور قصد نہ کر سکے گا جیسے وطن اصلی سے یوں دورہ کرنے میں حکم ہے یہاں تک کہ اگر مثلا وطن اقامت سے بیسں (۲۰) کوس گیا اور وہاں سے وہاں سے چھتیس (۳۶) کوس کا ارادہ کر کے چلا اور بیچ میں وطن اقامت آکر پڑے گا تو سفر جاتا رہے گا ، ہاں اگر تین منزل چلنے کے بعد یہ وطن بیچ میں نہ آئے گا تو قصد کرے گا اور یہ وطن وطن اقامت نہ رہے گا۔
:هفتم
نوکری ملازمت ہے اس میں قصد استقدامت ہمیشگی کا ارادہ ہوتا ہے تو جوجہاں نوکر ہوکر رہنا اختیار کرے مقیم ہو جائیگا اگر چہ بالخصوص پندرہ دن کی نیت نہ ہولان نيته الاستدامة فوق ذلك ( کیونکہ دوام کی نیت اقامت کی نیت سے فائق ہے )
ہاں اگر مدت سفر سے یہاں نوکر ہو کر آیا اور معلوم ہے کہ پندرہ دن ٹھہرنا ہوگا تو البتہ مقیم نہ ہوگا، جب اس دوسری جگہ سے فارغ ہو کر آئے گا اور یہاں ملا زمانہ قیام کرے گا اس وقت سے مقیم ہوگا۔ اور جبکہ ایک جگہ نوکر ہو کر رہے اور پندرہ دن کے اندر وہاں سے دوسری جگہ جانا معلوم نہ ہو تو صرف احتمال قاطع اقامت نہ ہوگا ورنہ کوئی وطن اقامت نہ ہو سکے اور اپنے وطن سے مدت سفر پر جو لاکھوں آدمی نوکر ہوتے اور برسوں وہاں رہتے ہیں کبھی مقیم نہ ہوں کہ بدلی یا کسی کام پر بھیجے جانے کا احتمال ہر وقت ہے هذا ما عندي والله تعالى اعلم یہ تو میرے نزدیک ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے
جب یہ امور سبعہ معلوم ہو لئے اب مسئلہ مسئولہ کی طرف چلئے
:فاقول وبالله التوفیق
) پس میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتا ہوں ) او پر معلوم ہوا کہ یہاں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ جہاں متعین ہوا وہ نرا جنگل ہے جائے اقامت نہیں، دوسرے یہ کہ محل اقامت ہے جیسے اسٹیشن۔ اور ہر تقدیر پر دو صورتوں ہیں: ایک یہ کہ یہ شخص متعین ہوتے وقت مسافر ہے یعنی تین منزل چل کر آیا اور ہنوز کہیں مقیم نہ ہوا، دوسرے یہ کہ مقیم ہے مثلاً اسی شہر یا اور قریب جگہ کا ساکن ہے اور یہاں شہر سے دو چار کوس کے فاصلے پر متعین ہو آیا آیا تو تین منزل طے کر کے مگر شہر میں پندرہ دن کی نیت کے ساتھ ٹھہرا کہ مقیم ہو گیا ۔ اور اب یہاں متعین ہو تو چار صورتیں آگئیں :
صورت اولی
مسافر بمعنی مذکور ہے اور یہ جگہ محل اقامت نہیں ، اس میں ابتدائے تعین سے بلا فصل جب تک یہاں رہے گا قصر کرے گا اگر چہ دس برس یہی رہنے کی نسبت اس کے آقا نے کہہ دیا اور اس نے بھی ارادہ کر لیا کہ جب وہ مدت سفر سے آیا اور کہیں مقیم نہ ہوا اور یہ محل اقامت نہیں تو جب تک بھی یہاں رہے گا مسافر ہی رہے گا۔ اگر یہاں سے حکما خواہ صرف بارادہ خود کسی دوسری جگہ جائے گا راہ میں قصر ہی کرے گا اگر چہ وہ جگہ یہاں سے مدت سفر پر نہ ہو۔ اس دوسری جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہو تو وہاں بھی قصر ہی پڑھے اور وہاں سے واپسی میں اور اس مقام پر واپس آ کر بھی ، اگر چہ یہاں کتنا ہی ٹھہرنے کا ارادہ ہو کہ ہنوز اس کا سفر بوجہ عدم اقامت ختم نہ ہوا۔
گر وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت حکما خواہ فقط اپنے ارادے سے کی تو وہاں پوری پڑھے گا۔ جب وہاں سے واپس ہوگا اگر اس جگہ اور مقام تعین میں تین منزل کا فاصلہ ہے تو واپسی میں بھی قصر کرے گا اور یہاں پہنچ کر بھی، اگر چہ یہاں کتنے ہی دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو کہ مدت سفر سے یہاں پہنچ کر اس کی پھر حالت اولی عود کر آئی اور انشائے سفر کے سبب اس اقامت جائے دیگر کا کوئی اثر نہ رہا۔اگر بعد ا قامت پانزده ( پندرہ ) روزہ وہاں سے واپس ہوا اور بیچ میں مدت سفر نہیں تو اب راہ میں بھی پوری پڑھنے گا اور یہاں پہنچ کر بھی کہ قبل سیر سہ روزہ جنگل میں بیت اقامت صحیح ہے اور بوجہ عدم انشائے سفر اُس کی وہ اقامت باطل نہ ہوئی نہ وہ وطن اقامت باطل ہوا، اس صورت ششم میں اُس کا حکم شقوق صورت ثانیہ آئندہ کی طرف عود کا جائے گا۔
:صورت ثانیہ
مقیم ہے اور یہ جگہ محل اقامت نہیں، اس میں : جب تک بعد تعین بلا فصل یہاں رہے گا پوری پڑھے گا کہ مقیم کا ئن میں ٹھہر نا سفر نہیں۔ اگر یہاں سے کہیں مدت سفر سے کم کی نیت سے جائے گا جاتے اور آتے اور وہاں ٹھہرتے ہر حال میں اتمام کرے گا اگر چہ وہاں ایک ہی دن ٹھہرے کہ ہنوز سفر متحقق نہ ہوا۔ اگر مدت سفر کی نیت سے جائے گا راہ میں قصر کرے گا اور وہاں بھی اگر پندرہ دن نیت نہ کرے ورنہ وہاں پوری پڑھے گا۔ یہی واپسی میں جب وہاں سے اُس مقام کو بقصد واحد واپس آئے گا راہ میں قصر کرے گا۔ جب یہاں پہنچے گا از انجا کہ مدت سفر سے آیا ہے اور یہ محل اقامت نہیں ، اب اس کا حکم شقوق صورت اولی گزشتہ کی طرف عائد ہو گا کہ ابتدائے واپسی سے بلا فصل جب تک یہاں رہے گا قصر کرے گا اس آخرہ کہ اب یہاں مسافر بمعنی مذکور ہو
کر آیا، بالجملہ جب یہاں بعد سفر آئے گا صورت اولی ہو گی اور مقیم ہو کر صورت ثانیہ یہی دورہ رہے گا۔
:صورت ثالثہ
مسافر بمعنی مذکور ہے اور یہ جگہ محل اقامت جیسے اسٹیشن، اس میں :اگر ابتدائے تعین میں معلوم تھا کہ پندرہ دن کے اندر یہاں سے جانا ہے تو مقیم نہ ہو گا قصر ہی پڑھے گا، یہاں سے کہیں قبل اقامت جائے راہ میں قصر ہی کرے اور واپسی میں بھی۔ جب وہاں سے واپس آئے اور اب بھی پندرہ دن کے اندر کہیں جانے کا ارادہ ہے تو یہی شقوق و احکام ہیں۔ اب وہ ارادہ نہیں یا ابتدائے تعین ہی میں روز کے اندر کہیں جانے کی نیت نہ تھی تو جبھی سے یا اب یہاں آکر مقیم ہو جائے گا پوری پڑھے، اس صورت چہارم میں اس کا حکم شقوق اربعہ آئندہ کی طرف رجوع کرے گا۔
:صورت رابعہ
مقیم ہے اور یہ جگہ محل اقامت، اس میں : جب تک یہاں رہے گا اتمام کرے گا اگر چہ ایک ہی دن ٹھہرنے کا رادہ ہو۔ یہاں سے کہیں جائے اور جاتے اور آتے اور ٹھہرتے اور واپس آکر ہمیشہ پوری پڑھے گا جبکہ وہ جگہ مدت سفر پر نہ ہو۔ اگر مدت سفر پر جائے راہ میں قصر کرے اور وہاں پوری پڑھے، اگر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہو، ورنہ وہاں بھی قصر کرے۔ جب وہاں سے واپس آئے راہ میں قصر کرے یہاں پہنچ کر یہی شقوق و احکام ہیں جبکہ پندرہ دن کے اندر جانے کا ارادہ نہ ہو۔ اگر بعد واپسی یہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا اردہ ہے تو یہاں آ کر بھی مقیم نہ ہو گا کہ یہ وطن اقامت بوجہ سفر باطل ہو گیا اور اب قصدا قامت نہیں، اس صورت پنجم میں اس کا حکم شقوق صورت ثالثہ کی طرف راجع ہوگا۔
READ MORE  ایک شخص پان کھا کے اول شب میں سویا، صبح کو اٹھ کر نیت روزہ کرتا ہے، روزہ درست ہوگا یا نہیں؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top