جہاد میں زکوۃ کے مال کو صرف کرنا کیسا؟
:سوال
جنگ اٹلی و شہنشاہ روم کو بھیجنے کے لیے اہل اسلام زکوۃ جمع کر کے بھیج رہے ہیں، کیاز کوۃ کی رقم اس میں دےسکتے ہیں؟
:جواب
زکوۃ جہاد کے اُن مصارف میں جن میں فقیر کو تملیک نہ ہو جیسے گولے بارو کی خریداری یا فوج کی بار برداری یا فوجی افسروں کی تنخواہ یا فوجی دواخانہ کی دواؤں میں دینا جائز نہیں، نہ اس سے زکوۃ ادا ہو۔
ہاں فقیر مجاہدوں کو دی جائے یا شہیدوں کے فقیر پس ماندوں کو یا ان مجاہدوں کو جو سفر کر کے آئے، گھر پر اموال رکھتے ہیں یہاں مصارف کے لیے کچھ پاس نہیں ان کو دینا جائز ہے اور فی سبیل اللہ ہے ثانی فقراء اور ثالث ابن السبیل، اور یہ سب مصارف زکوہ ہیں۔
یا یہ ہو کہ یہاں کسی معتمد فقیر کو دے کر مالک کر کے قبضہ دے دیں وہ اپنی طرف سے اس چندہ میں دے دے، اب کوئی شرط نہیں ہر مصرف میں صرف ہو سکتی ہے، اور زکوۃ دہندہ اور فقیر دونوں کو ثواب ملے گا۔
پھر صورت اولی میں کہ خود ز کوۃ ہی ان جائز مصارف کے لیے وہاں بھیجے، اگر ابھی اس کی زکوۃ کا سال تمام نہ ہوا تھا پیشگی دیتا ہے جب تو دوسرے شہر کو بھیجا مطلقا جا نہ ہے اور اگر سال تمام کے بعد بھیجے جب بھی اس صورت میں حکم جواز ہے کہ
مجاہدوں کی اعانت میں اسلام کا زیادہ نفع ہے۔
مگر اطمینان ضرور ہو کہ ٹھکانے پر پہنچے بیچ میں خو روبرو نہ ہو جائے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 256

READ MORE  سادات پر زکوۃ حرام ہونے کی وجہ کیا ہے؟
مزید پڑھیں:زکوۃ کے پیسوں سے دینی کتاب طبع کروانا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top