امام کا دو ستونوں کے بیچ اور اونچی جگہ کھڑا ہونا کیسا
:سوال
امام کا دوستونوں کے بیچ میں اور مقتدیوں سے تین گرہ اونچی جگہ پر کھڑا ہونا کیسا ہے؟
:جواب
امام کا دوستونوں کے بیچ میں کھڑا ہونا مکروہ ہے۔
اسی طرح امام کا تمام مقتدیوں سے بلند جگہ میں ہونا بھی مکروہ ۔ سنن ابی داؤد میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” اذا ام الرجل القوم فلا يقم في مكان ارفع من مقامهم او نحو ذلك ” يعنی جب کوئی شخص نمازیوں کی امامت کرے تو ان کے مقام سے اونچی جگہ میں نہ کھڑا ہو۔
( سنن ابوداؤد،ج1،ص 88 ،مجتبائی ،دہلی)
پھر ہمارے ائمہ مذہب رضی اللہ تعالی عنہم نے ظاہر الروایہ میں اس کراہت بلندی و پستی کو کسی مقدار معین مثلاً ایک ذراع شرعی ( ایک ہاتھ یعنی کہنی سے لے کر درمیانی انگلی کی نوک تک ) و غیرہ پر موقوف نہ مانا بلکہ جس قدر سے امام وقوم کا مقام میں امتیاز واقع ہو مطلقاً باعث کراہت جانا اور اسی کو امام ملک العلماء ابوبکر مسعود کاشانی قدس سرہ الربانی نے بدائع میں صحیح اور امام محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام صاحب فتح القدیر و غیر ہ محققین نے اوجہ وارجح فرمایا اور یہی اطلاق احادیث کا مفاد، تو اسی پر فتوی اور اس پر اعتماد۔ ہمارے مذہب کے قواعد مقررہ سے ہے کہ عند اختلاف الفتیا ( جب فتوی میں اختلاف ہو تو ) ظاہر الروایۃ پر عمل واجب ہے۔
مزید پڑھیں:وضو، غسل اور نماز کے فرائض اور احکام
اور علماء فرماتے ہیں جب روایت (نقلی دلائل ) و درایت ( عقلی دلائل ) متطابق ہوں تو عدول ( پھر نے ) کی گنجائش نہیں ۔یہاں جبکہ یہی ظاہر الروایہ اور اسی کے مطابق دلیل وروایت تولا جرم قول یہی ہے کہ ادنی ما بہ الامتیاز ( کم سے کم وہ مقدار جس سے امتیاز پیدا ہو جائے ایسی) بلندی بھی مکروہ ہے۔ ہاں ایسا قلیل تفاوت جس سے امتیاز ظاہر نہ ہو عفو ہے ۔ فان فی اعتباره حرج أو الحرج مدفوع بالنص ( كيونكہ اس کے اعتبار کرنے میں حرج و تنگی ہے اور تنگی نصوص کی وجہ سے مدفوع ہے )۔ یونہی اگر پہلی صف امام کے ساتھ ہو باقی صفیں نیچی تو بھی مذہب اصح میں کچھ حرج نہیں ۔
اور شک نہیں کہ تین گره بلندی قطعاً ممتاز و باعث امتیاز ہے کہ ہر شخص بنگاہ اولیں فوراً تفاوت بین جان لے گا تو مذہب معتمد پر اس کی کراہت میں شبہہ نہیں بلکہ علما تصریح فرماتے ہیں کہ امام کے لئے تخصیص مکانی کراہت میں یہ صورت بھی داخل کہ مثلا وہ مکان مسقف ( چھت والے) میں ہو اور مقتدی صحن میں ۔ یہاں تک کہ امام کے مقتدیوں سے تقدیم کو فر ماتے ہیں یہ بھی تخصیص مکانی ہے اگر شریعت مطہرہ میں اس کا حکم نہ آتا مکروہ ہوتا ۔
مزید پڑھیں:پتلون پہن کر نماز پڑھنا کیسا؟
جب ایسے فرق کو بھی تخصیص مکانی ٹھہراتے ہیں حالانکہ مکان واحد اور زمین ہموار ہے جس میں فی نفسہ اصلا کوئی فرق و امتیاز نہیں تو مثلاً کرسی ، مکان یا چبوترہ کی بلندی اگر چہ دو تین ہی گرہ ہو بدرجہ اولی تخصیص مکانی باعث کراہت ہوگی کہ یہاں نفس مکان میں تفرقہ و تفاوت موجود اور دالان و صحن کے فرق میں تو سرے سے درجہ ہی بدل گیا تو یہ سب صورتیں ، ارشاد امام علام صدر الشريعة قدس سره و تخصیص الامام بمکان (امام کا جگہ مخصوص کرنا) میں داخل ہیں جزاہ اللہ خیر جزاء کی دو لفظوں میں تمام صور کا احاطہ فرمالیا اور بہت نزاعوں ( جھگڑوں) کا تصفیہ (حل) کر دیا فالحمد للہ رب العلمین ۔
پس ثابت ہوا کہ جہاں دالان مسجد کی کرسی صحن مسجد سے بلندی ممتاز رکھتی ہو جیسا کہ اکثر مساجد میں ہے وہاں امام کا دوستونوں کے درمیان کھڑا ہونا جیسا کہ عوام ہند میں مشاہد ہے نہ صرف ایک کراہت بلکہ تین کراہتوں کا جامع ہو گا
اولا :یہی بین السارتین ( دوستونوں کے درمیان ) قیام امام (امام کا کھڑا ہونا ) ۔
ثانیاً: مقتدیوں پر بلندی ممتاز ۔
ثالثاً: اس کا زیر سقف ( چھت کے نیچے ) اور مقتدیوں کا محسن پر ہونا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 291

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 182
مزید پڑھیں:امام قرات یا رکوع کسی مقتدی کے لیے دراز کر سکتا ہے یا نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top