تراویح میں سامع کے علاوہ لوگوں کا امام کو لقمہ دینا
:سوال
ایک امام مسجد میں تراویح پڑھاتا ہے اور ایک سامع حافظ بھی اس کی تصحیح کے واسطے مقرر ہے امام اس کی تصحیح سے فائدہ اٹھاتا ہے اب کوئی حافظ بھی امام کو اپنے خیال کے موافق لقمہ دیتا ہے جو بھی غلط اورکبھی صحیح ثابت ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ سامع اپنی یادداشت کے موافق اس دوسرے بتانے والے کی تردید بھی کرتا ہے اور امام اس شش و پنج میں پڑ جاتا ہے کر کسی کا قول مانا جائے غرض کہ امام کو کئی شخصوں کے لقمہ دینے سے اور زیادہ شکوک پیدا ہوتے ہیں اور پریشان ہو کر معمول سے زیادہ غلطی کرنے لگتا ہے، علاوہ ازیں اکثر نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو محض اپنی یاد جتانے کے واسطے ذر اذ را شبے پر لقمہ دیتے ہیں اور قاری کو پریشان کرتے ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
:جواب
:یہاں چند امور ہیں جن کے علم سے حکم واضح ہو جائے گا
(1)
امام کو فور بتانا مکروہ ہے۔
ہاں اگر وہ غلطی کر کے رواں ہو جائے تو اب نظر کریں اگر غلطی مفسد معنی ہے جس سے نماز فاسد ہو تو بتانا لازم ہے اگر سامع کے خیال میں نہ آئی ہر مسلمان کا حق ہے کہ بتائے کہ اس کے باقی رہنے میں نماز کا فساد ہے اور دفع فساد لازم اور اگر مفسدمعنی نہیں تو بتانا کچھ ضرور نہیں بلکہ نہ بتانا ضرور ہے جبکہ اس کے سبب امام کو وحشت پیدا ہو” فان الامر بالمعروف يسقط بالايحاش كما في الفتاوى العلمگيرية وغيرها”( وحشت پیدا کرنے والا امر بالمعروف ساقط ہو جاتا ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری وغیرہ میں ہے )۔ بلکہ بعض قاریوں کی عادت ہوتی ہے کہ غیر شخص کے بتانے سے اور زیادہ اُلجھ جاتے اور کچھ حروف اس گھبراہٹ میں ان سے ایسے صادر ہو جاتے ہیں جس سے نماز فاسد ہوتی ہے اس صورت میں اوروں کا سکوت لازم ہے کہ ان کا بولنا باعث فساد نماز ہوگا۔
(2)
قاری کو پریشان کرنے کی نیت حرام ہے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”بشر و او لا تنفروا ويسروا ولا تعسروا” ترجمہ: لوگوں کو خوشخبریاں سناؤ نفرت نہ دلاؤ، آسانی پیدا کروتنگی نہ کرو اور بیشک آج کل بہت حفاظ کا یہ شیوہ ہے یہ بتانا نہیں بلکہ حقیقتہ یہود کے اس فعل میں داخل ہے (لا تَسْمَعُوا لهذا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ ) (اس قرآن کو نہ سنو اس میں شور ڈالو ) ۔
مزید پڑھیں:امام قرات یا رکوع کسی مقتدی کے لیے دراز کر سکتا ہے یا نہیں؟
(3)
اپنا حفظ جتانے کے لئے ذراز را شبہ پر رو کناریاء ہے اور ریاء حرام ہے خصوصاً نماز میں ۔
(4)
جبکہ غلطی مفسد نماز نہ ہوتو محض شبہ پر بتانا ہرگز جائز نہیں بلکہ صبر واجب، بعد سلام تحقیق کرلیا جائے ، اگر قاری کی یادصحیح نکلے فبہا اوران کی یاد ٹھیک ثابت ہوئی تو تکمیل ختم کے لئے حافظ اتنے الفاظ کا اور کسی رکعت میں اعادہ کر لے گا حرمت کی وجہ ظاہر ہے کہ فتح (لقمہ ) حقیقہ کلام ہے اور نماز میں کلام حرام و مفسد نماز ، مگر بضرورت اجازت ہوئی جب اسے غلطی ہونے پر خود یقین نہیں تو میبح میں شک واقع ہوا اور محرم موجود ہے لہذا حرام ہوا جب اسے شبہ ہے تو ممکن کہ اسی کی غلطی ہو اور غلط بتانے سے اس کی نماز جاتی رہے گی اور امام اخذ کرے (لقمہ لے )گا تو اس کی اور سب کی نماز فاسد ہو گی ، تو ایسے امر پر اقدام جائز نہیں ہو سکتا۔
(5)
غلطی کا مفسد معنی ہونا مبنائے افساد نماز ہے ایسی چیز نہیں جسے سہل جان لیا جائے ، ہندوستان میں جو علماء گنے جاتے ہیں ان میں چند ہی ایسے ہو سکیں کہ نماز پڑھتے میں اس پر مطلع ہو جائیں ہزار جگہ ہوگا کہ وہ افساد گمان کریں گے اور حقیقۃ فساد نہ ہوگا جیسا کہ ہمارے فتاوی کی مراجعت سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان امور سے حکم مسئلہ واضح ہو گیا ، صورت فساد میں یقیناً بتایا جائے ورنہ تشویش قاری ہو تو نہ بتا ئیں اور خود شبہ ہو تو بتا نا سخت نا جائز ، اور جو ریاء و تشویش چاہیں اُن کو روکا جائے نہ مانیں تو اُن کو مسجد میں نہ آنے دیا جائے کہ موذی ہیں اور موذی کا دفع واجب۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 286

READ MORE  آٹھ نو سال کے بچے کا صف میں کھڑا ہونا کیسا؟
مزید پڑھیں:امام کا دو ستونوں کے بیچ اور اونچی جگہ کھڑا ہونا کیسا
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top