اجلہ اکا برآئمہ تصحیح و فتوی مثل امام قاضی خان وامام برہان الدین صاحب، ہدا یہ وامام ملک العلماء مسعود کا شانی صاحب برائع وغیرہم رحمہم اللہ تعالی نے اسی کی ترجیح وتصہحیح فرمائی اور جلالت مصححین ( تصحیح کرنے والوں کی شان و عظمت )باعث ترجیح ہے
:خامسا
مجہور مشائخ مذہب نے اس کی تصحیح و ترجیح کی اور عمل اسی پر چاہیے جس طرف اکثر مشائخ ہوں
:سادسا
اسی میں احتیاط ہے کہ مثل ثانی میں عصر پڑھی تو ایک مذہب جلیل پر فرض ذمہ سے ساقط نہ ہوا پڑھی بے پڑھی برابر رہی اور بعد میں مثل ثانی پڑھی تو بالا اتفاق صحیح وکامل ادا ہوئی
رہیں حدیثیں بعض صاحبوں نے گمنڈ یہ کیا کہ احادیث مذہب صاحبین میں نص ہیں بخلاف مذہب امام عظم رضی اللہ تعالی عنہم حالانکہ کے حق یہ ہے کہ صحاغ احادیث دونوں جانب موجود ہرگز کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مذہب صاحبین پر کوئی حدیث صحیح صریح سالم عن المعارض( معارض سے سلامتی کے ساتھ) ناطق (دلالت کر رہی )ہے
جیسے دعوی ہو پیش کریں اور بامداد روح پر فتوی حضرت سیدنا امام رضی اللہ تعالی عنہم (امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی روح مبارک کی امداد سے )اس فقیر سے جواب لے ان شاءاللہ تعالی یا تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ حدیث جس کے مخالف نے استناد کیا صحیح یا نہ تھی یا صحیح تھی تو مذہب صاحبین میں صریح نہ تھی یا یہ بھی سہی تو اس کا معارض صحیح موجود ہے اور فقیر انشاءاللہ تعالی ثابت کر دے گا کہ اس تعارض میں اس احادیث مذہب صاحبین کو منسوخ ماننامقتضائے اصول ہے اور اگر نہ مانیں تا ہم تعارض قائم ہو کر تساقط ہوگا اور پھر وہی مذہب امام رنگ ثبوت پائے گا کہ جب بوجہ تعارض مثل ثانی میں شک واقع ہواکہ یہ وقت ظہر ہے یا وقت عصر اور اس سے پہلے وقت ظہر بالیقین ثابت تھا تو شک کے سبب خارج نہ ہوگا اور وقت عصر بالیقیین نہ تھا تو شک کے سبب داخل نہ ہوگا والحمداللہ رب العالمین