:سوال
حرف ”ض” کو ”ظ ”کے ساتھ ظادیا ”د ”کے ساتھ داد پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
:جواب
:یہ حرف نہ”د” ہے نہ” ظ” ، صورتیں تین ہیں
(1)
قصداً حرف منزل من الله (اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ حرف) کو تبدیل کرے یہ ”دواد ”والوں میں نہیں وہ اپنے نزدیک ضاد ہی پڑ ضاد ہی پڑھتے ہیں نہ یہ کہ اس سے ہٹ کر دال مفخم ( موٹا دال ) اُس کی جگہ بالقصد قائم کرتے ہیں البتہ” ظا ”والوں میں ایسا ہے ان کے بعض نے تصریحا لکھ دیا کہ ض کی جگہ ظ پڑھو اور سب مسلمانوں اس پر عمل پیرا ہو جاؤ یہ حرام قطعی ہے اور اشد اخبث کبیرہ بلکہ امام اجل ابو بکر فضلی وغیرہ اکا بر ائمہ کی تصریح سے کفر ہے۔۔ ان کی نماز پہلی ہی بار مغظوب پڑھتے ہی ہمیشہ باطل ہے۔
(۲)
خطأ تبدیل ہو یعنی ادائے ”ض ”پر قادر ہے اُسی کا قصد کیا اور زبان بہک کر دال یا ظ ادا ہوئی اس میں متاخرین کے اقوال کثیر ہ و مضطرب ہیں اور ہمارے امام مذہب رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ مذہب ہے اگر فساد معنی ہو تو نماز فاسد دور نہ صحیح ۔
(۳)
یہ کہ عجزا تبدیل یعنی قصد توض کا کرتا ہے مگر ادا نہیں کر سکا”د” یا ”ظ ”ادا ہوتی ہے اور ہندوستان میں اکثر دواد والے ایسے ہی ہیں ان پر فرض عین ہے کہ ض کا مخرج اور اس کا طریقہ ادا سیکھیں اور شبانہ روز ( دن رات ) حد درجے کی کوشش اس کی تصحیح میں کریں جب تک کوشاں رہیں گے ان کی نماز صحیح کہی جائے گی ، جبکہ صیح خواں کے پیچھے اقتداء پر قادر نہ ہوں اور اس وقت تک امثال (اپنے جیسوں) کی امامت بھی ہو سکے گی اور جب کوشش اکتا کر چھوڑ دیں یا سرے سے کوشاں نہ ہوں اُن کی اپنی بھی باطل اور ان کے پیچھے اور وں کی بھی باطل ، یہی حکم ظائیوں کا ہے جبکہ قصداً تبدیل نہ کرتے ہوں یہ خلاصہ حکم ہے اور تفصیل ہمارے رسالہ الجام الصاد عن سنن الضاد میں ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 340