:سوال
کیا حالت سفر میں دو نمازوں میں جمع صوری کرنا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی ہے غیر مقلد میاں نزیر حسین نے اپنی کتاب معیار الحق میں لکھا ہے کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کے آ نحضرت جمع صوری سفر میں کرتے تھے
:جواب
حضور پرنورسید یوم النشور صل اللہ تعالی علیہ سلم سے جمع صوری کا ثبوت اصلا محل کلام نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمہ حنفیہ ہے اس میں صاف صریح جلیل و صیح احادیث مروی مگر ملا جی (میاں نذیر حسین ) تو انکار آفتاب کے عادی
سنن ابوداؤد میں بسند صحیح ہے
مؤذن ابن عمر قال: الصلاة، قال: سر، حتى اذاكان قبل غيوب الشفق نزل، فصلي المغرب ثم انتظر حتى غاب الشفق فصلى العشاء، ثم قال ان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم كان اذا عجل به امر صنع مثل الذي صنعت فسار في ذلك اليوم والليلة مسيرة ثلث
یعنی نافع وعبدالله بن واقد دونوں تلامذہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا فر ماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا کے مؤذن نے نماز کا تقاضا کیا، فرمایا چلو یہاں تک کہ شفق ڈوبنے سے پہلے اتر کر مغرب پڑھی پھر انتظار فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشا پڑھی پھر فرمایا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ سلم کو جب کوئی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسا میں نے کیا۔ ابن عمر نے اس دن رات میں تین رات دن کی راہ قطع کی۔
مزید پڑھیں:غروب سے کتنی دیر بعد مغرب کی اذان کہی جائے اور افطار کیا جائے؟ مغرب کی اذان اور جماعت میں کتنا فاصلہ ہونا چاہئیے؟
نسائی کی روایت بسند صحیح یوں ہے کہ نافع فرماتے ہیں
خرجت مع عبد الله بن عمر في سفر، يريد ارضاله اتاهات فقال: ان صفية بنت أبي عبيد لمابها ، فانظر ان تدركها فخرج مسرعه، ومعه رجل من قريش يسايره وغابت الشمس فلم يصل الصلاة وكان عهدى به وهو يحافظ على الصلاة فلما ابطاء قلت الصلاة، يرحمك له فالتفت اى ومضى حتى اذا كان فى أخر الشفق نزل فصلى المغرب ثم اقام العشاء وقد توارى الشفق فصلى له ثم اقبل علينا فقال : ان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم كان اذا عجل به السير صنع هكذ
یعنی نافع فرماتے عبد اللہ بن عمر اپنی ایک زمین کو تشریف لیے جاتے تھے کسی نے آ کر کہا آپ کی زوجہ صفیہ بنت ابی عبیدا اپنے حال میں مشغول ہے شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں۔ یہ سن کر بہ سرعت ( جلدی سے) چلے اور اُن کے ساتھ ایک مرد قریشی تھاسورج ڈوب گیا نماز نہ پڑھی اور میں نے ہمیشہ اُن کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے تھے جب دیر لگائی میں نے کہا نماز ، خدا آپ پر رحم فرمائے، میری طرف پھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہوئے جب شفق کا اخیر حصہ رہا اتر کر مغرب پڑھی پھر عشا کی تکبیر اس حال میں کہیں کے شفق ڈوب چکی اس وقت عشاء پڑھیں پھر ہماری طرف منہ کر کے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے
امام احمد، ابو بکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری و مسلم اور امام طحاوی نے نقل کیا کہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں “
كان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم في السفر يؤخر الظهر ويقدم العصر، ويؤخر المغرب ويقدم العشاء
حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم سفر میں ظہر کو دیر فرماتے عصر کو اول وقت پڑھتے مغرب کی تاخیر فرماتے عشاء کو اول وقت پڑھتے ۔
( امام اہلسنت علیہ الرحمتہ ارادہ جمع صوری پر دیگر متعدد احادیث اور صحابہ کرام ہیم الرضوان کا عمل نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں) الحمد اللہ جمع صوری کا طریقہ حضور پُر نور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و حضرت مولی علی و عبد اللہ بن مسعود وسعد بن مالک سےعبداللہ بن عمر و غیر ہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے روشن وجہ پر ثابت ہوا اور امام لا مزہبان ( بدمذہبوں کے امام میاں نذیرحسین) کا وہ جبروتی ادعا ( زبردستی کا دعوی ) کہ اس میں کوئی حدیث صحیح نہیں ۔۔ اپنی سزائے کردار کو پہنچا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 166 تا 174