:سوال
غیر مقلدین کے بارے میں یہ بیان فردیں کہ یہ کہاں سے نکلے اور ان کا مقصد کیا ہے؟
:جواب
یہ فرقہ غیر مقلدین کہ تقلید ائمہ دین کے کے دشمن اور بیچارہ عوام اہل اسلام کے رہزن ( ڈاکو ) ہیں ، مذاہب اربعہ کو چوراہا بتا ئیں، ائمہ بدی کو احبار (پادری) و رہبان ( جوگی ) ٹھرائیں ، سچے مسلمانوں کو کافر و مشرک بنائیں، قرآن وحدیث کی آپ سمجھ رکھنا ، ارشادات ائمہ کو جانچنا پر کھنا ہرعامی جاہل کا کام کہیں۔ بے راہ چل کر بیگا نہ مچل کر حرام خدا کو حلال کر دیں حلال خدا کو حرام کہیں ، ان کا بدعتی بدمذہب گمراہ بے ادب خال ( گمراہ ) مضل ( گمراہ کرنے والا ) غوی مبطل ہونا نہایت جلی واظہر ( بہت زیاد ہ واضح ہے ) بلکہ عند الانصاف یہ طائفہ تالفہ بہت فرق اہل بدعت ( بہت سارے گمراہ فرقوں ) سے اشر ( زیادہ شریر ) واضر ( زیادہ نقصان پہنچانے والا ) واشنع ( زیادہ برا ) وافجر( زیادہ فاجر ہے ) كما لا يخفى على ذى بصر ( جیسا کہ کسی بھی صاحب بصیرت پر خفی نہیں )۔
صحیح بخاری شریف میں ہے ” كان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال انهم انطلقو إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين” یعنی عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا خوارج کو بدترین خلق اللہ جانتے کہ انہوں نے وہ آیتیں جو کافروں کے حق میں اتریں اُٹھا کر مسلمانوں پر رکھ دیں۔ بعینہ یہی حالت ان حضرات کی ہے۔ آیہ کریمہ”اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَا نهُمْ أَرْبَا يَا مِنْ دُونِ اللَّهِ ﴾ ترجمہ: انھوں نے اپنے پادریوں اور جو گیوں کو اللہ تعالی کے سوا خدا بنالیا۔ کہ کفار اہل کتاب اور ان کے عمائد وار باب ( راہنماؤں کے بارے )میں اُتری ہمیشہ یہ بیباک لوگ اہلسنت وائمہ اہلسنت کو اس کا مصداق بتاتے ہیں۔
علامہ طاہر قول ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا نقل کر کے فرماتے ہیں ” قال المذنب ناب الله عليه واشر منهم من يجعل آيات الله في شرار اليهود على علماء الامة المعصومة المرحومة طهر الله الارض عن رجسهم” ترجمہ مذنب كہتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے ، ان خارجیوں سے بدتر وہ لوگ ہیں کہ اشرار یہود کے حق میں جو آیتیں اتریں انھیں امت محفوظہ مرحومہ کے علماء پر ڈھالتے ہیں اللہ تعالی زمین کو اُن کی خباثت سے پاک کرے۔
( مجمع بحارا لانوار ، ج 1 ،ص 242 ،مطبوعہ نولکشور ،لکھنو )
مزید پڑھیں:دین کے طالب علم پر جماعت نماز پنجگانہ واجب ہے یا نہیں؟
اصل اس گروہ ناحق پژوہ کی نجد سے نکلی ،صحیح بخاری شریف میں ہے” عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال ذكر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقال اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا قال اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا فاظنه قال في الثالثة هناك الزلزال والفتن وبها يطلع قرن الشيطان ” ترجمہ : نافع سے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور پر نورسید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دعا فرمائی الہی ہمارے لئے برکت دے ہمارے شام میں ، ہمارے لئے برکت رکھ ہمارے یمن میں صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ! ہمارے نجد میں حضور نے دوبارہ وہی دعا کی الہی ہمارے لئے برکت کر ہمارے شام میں الہی ! ہمارے لیے برکت بخش ہمارے یمن میں، صحابہ نے پھر عرض کی یا رسول اللہ ہمارے نجد میں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہا فرماتے ہیں میرے گمان میں تیسری دفعہ حضور نے نجد کی نسبت فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہیں سے نکلے گا شیطان کاسینگ۔
(الصحیح البخاری ،ج 1 ،ص 141، قدیمی کتب خانه، کر اچی)
اس خبر صادق مخبر صادق صلی اللہ علی علیہ وسلم (سچی خبر دینے والے کی کچی خبر ) کے مطابق عبد الوہاب نجدی کے پسر واتباع نے ۔ تیرھویں صدی میں حرمین شریفین پر خروج کیا اور ناکردنی کاموں ( نہ کرنے والے کاموں ) نا گفتی باتوں ( نہ کرنے والی باتوں) سے کوئی دقیقہ زلزلہ وفتنہ کا اُٹھا نہ رکھا۔ حاصل اُن کے عقائد زائغہ (باطل عقائد ) کا یہ تھا کہ عالم میں وہی مشت ذلیل ( مٹھی بھر ذلیل ) موحد ( توحید ماننے والے ) مسلمان ہیں باقی تمام مومنین معاذ اللہ مشرک ۔ اسی بناء پر انھوں نے حرم خدا و حریم مصطفی علیہ افضل الصلوة والثناء کو عیاذا باللہ دار الحرب اور وہاں کے سکان کرام ( وہاں کے رہنے والے معزز لوگوں ) ہمسائیگانِ خدا و رسول کو (خاکم بدہان گستاخاں) کا فر و مشرک ٹھہرایا اور بنام جہا دو خروج کر کے لوائے فتنہ عظمےپر شیطنت کبری کا پرچم اڑایا۔
علامہ فہامہ خاتمۃ المحققین مولنا امین الدین محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی نے کچھ تذکرہ اس واقعہ ہائلہ کافر مایا: كما وقع في زماننا في اتباع بن عبد الوهاب الذين خرجو امن نجد وتغلبوا على الحرمين وكانوا ينتحلون مذهب الحنابلة لكنهم اعتقدوا انهم هم المسلمون وان من خالف اعتقاد هم مشركون واستباحوا بذلك قتل اهل السنة وقتل علمائهم حتى كسر الله تعالى شوكتهم وخرب بلادهم وظفر بهم عساكر المسلمين عام ثلث وثلثين ومائتين والف” یعنی خارجی ایسے ہوتے ہیں جیسا ہمارے زمانے میں پیروان عبدالوہاب سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کر کے حرمین محترمین پر تغلب کیا اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان اور جوان کے مذہب پر نہیں وہ مشرک ہیں اس وجہ سے انھوں نے اہلسنت و علمائے اہلسنت کا قتل مباح ٹھہرالیا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انکی شوکت توڑ دی اور اُن کے شہر ویران کئے اور لشکر مسلمین کو ان پر فتح بخشی ۱۲۳۳ھ میں ۔
( رو المختار،ج 30 ،ص 339 ، مصطفی البابی مصر)
مزید پڑھیں:امام کا دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھانا کیسا؟
غرض یہ فتنہ شنیعہ وہاں سے مطرود اور خدا ورسول کے پاک شہروں سے مدفوع و مردود ہو کر اپنے لئے جگہ ڈھونڈتا ہی تھا کہ نجد کے ٹیلوں سے اس دار الفتن ہندوستان کی نرم زمین اسے نظر پڑی ، آتے ہی یہاں قدم جمائے، بانی فتنہ (اسماعیل دہلوی) نے کہ اس مذہب نامہذب کا معلم ثانی ہوا وہی رنگ آہنگ کفر و شرک پکڑا کہ ان معدودے چند کے سوا تمام مسلمان مشرک ، یہاں یہ طائفہ ۔ خود متفرق ہو گیا ایک فرقہ ! نہ بظاہر مسائل فرعیہ میں تقلید ائمہ کا نام لیتار ہا دوسرے نے ۔۔ اسے بھی بالائے طاق رکھا، چلئے آپس میں چل گئی وہ انھیں گمرا ہ یہ انھیں مشرک کہنے لگے ۔ مگر مخالفت بلسنت و عداوت اہل حق میں پھر ملت واحدہ ( یکجا ) رہے، ہر چندان اتباع ( پیر کارواں ) نے بھی تکفیر مسلمین ( مسلمانوں کو کافر بنانے ) میں اپنی چلتی گئی نہ کی لیکن پھر کلام الامام امام الکلام (امام کا کلام، کام کا امام ہوتا ہے )۔
ان کے امام و بانی و ثانی کو شرک وکفر کی وہ تیز وتند چڑھی کہ مسلمانوں کے مشرک کا فربنانے کو حدیث صحیح مسلم” لا يذهب الليل و النهار حتى يعبد اللات والعزى (إلى قوله) يبعث الله ريحا طيبة فتوفي كل من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من ايمان فيبقى من لا خير فيه فيرجعون الى دين أبائهم “مشكوة سے نقل کر کے بے دھڑک زمانہ موجودہ پر جمادی جس میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ” زمانہ نہ ہوگا جب تک لات وعزی کی پھر سے پرستش نہ ہو اور وہ یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اُٹھا لے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا انتقال کرے گا جب زمین میں نرے کا فررہ جائیں گے پھر بتوں کی پوجا بدستور جاری ہو جائے گی۔
اس حدیث کو نقل کر کے صاف لکھ دیا سوپیغمبر خدا کے فرمانے کے موافق ہوا ، انا للہ وانا اليه راجعون ۔ ہوشمند نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ اگر یہ وہی زمانہ ہے جس کی خبر حدیث میں دی تو واجب ہوا کہ روئے زمین پر مسلمان کا نام و نشان باقی نہ ہو بھلے مانس اب تو اور تیرے ساتھی کدھر بچ کر جاتے ہیں، کیا تمھار طائفہ (گروہ) دنیا کے پردے سے کہیں الگ بستا ہے، تم سب بھی انہیں شرار الناس و بدترین خلق میں ہوئے جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان کا نام نہیں اور دین کفار کی طرف پھر کر بتوں کی پوجا میں مصروف ہیں۔ سچ آیا حدیث مصطفی صلی اللہ تعالى عليہ و سلم کا ارشاد كہ”حبک الشيء يعمی ویصمہ” ترجمہ: شے کی محبت تجھے اندھا اور بہرا کر دے گی۔
(مسند احمد بن حنبل ، ج5، ص 194 ، دار الفکر، بیروت )
مزید پڑھیں:اگر صحن مسجد محراب کے وسط میں نہ ہو تو امام کس جگہ کھڑا ہو؟
شرک کی محبت نے اس ذی ہوش کو ایسا اندھا بہرا کر دیا کہ خود اپنے کفر کا اقرار کر بیٹھا، غرض تو یہ ہے کہ کسی طرح تمام مسلمان معاذ اللہ مشرک ٹھہریں اگر چہ پرائے شگون کو اپنا ہی چہرہ ہموار ہو جائے۔ اور اس بیباک چالاک کی نہایت عیاری یہ ہے کہ اسی مشکوۃ کے اُسی باب لا تقوم الساعة الاعلى شرار الناس (قیامت صرف شریر ترین لوگوں پر قائم میں ہوگی ) میں اسی حدیث مسلم کے برابر متصل اسی صحیح مسلم کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے وہ ( حدیث ) موجود تھی جس سے اس حدیث کے معنی واضح ہوتے اور اس میں صراحتہ ارشاد ہوا تھا کہ یہ وقت کب آئے گا اور کیونکر آئے گا اور آغاز بت پرستی کا منشا کیا ہوگا۔
وحدیث مختصر أ يہ ہے” و عن عبد الله بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما قال قال رسول الله ﷺ يخرج الدجال في أمتى فيمكث اربعين فيبعث الله عيسى بن مريم فيهلكه ثم يمكث في الناس سبع سنين ليس بين اثنين عداوة ثم يرسل الله ريحاباردة من قبل الشام فلا يبقى على وجه الأرض أحد في قلبه مثقال ذرة من خير او ايمان الاقبضته حتى لو ان واحدكم دخل في كبد جبل لدخلته عليه حتى تقبضه قال فيبقى شرار الناس في خفة الطير واحلام السباع لا يعرفون معروفاً ولا ينكرون منكرا فيتمثل لهم الشيطان فيقول الاستحيون فيقولون فما تأمرنا فيامرهم بعبادة الأوثان ثم ينفخ في الصور ( ملخصا) ” یعنی عبد اللہ بن عمر رضی الہ تعا لی عنہا سے روایت رے گا ہے کہ حضور پر نو رسید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں دجال نکل کر چالیس تک ٹھہرے گا پھر اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہم الصلو ۃو اسلام کو بھیجے گا۔
اس کو ہلاک کریں گے پھر سات برس تک لوگوں میں اس طرح تشریف رکھیں گے کہ کوئی دودول آپس میں عداوت نہ رکھتے ہوں گے اس کے بعد اللہ تعالی شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا کہ روئے زمین پر جس دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اس کی روح قبض کرلے گی یہاں تک کہ اگر تم میں کوئی پہاڑ کے جگر میں چلا جائے گا تو وہ ہوا وہاں جا کر بھی اُس کی جان نکال لے گی اب بدترین خلق باقی رہ جائیں گے فسق و شہوت میں پرندوں کی طرح ہلکے ، سبک اور ظلم وشدت میں درندوں کی طرح گراں سخت جو اصلا نہ کبھی بھلائی سے آگاہ ہوں گے نہ کسی بدی پر انکار کریں گے شیطان ان کے پاس آدمی کی شکل بن کر آئے گا اور کہے گا تمہیں شرم نہیں آتی یہ کہیں گے تم ہمیں کیا حکم کرتا ہے وہ انھیں بت پرستی کا حکم دے گا اس کے بعد فتح صور ہو گا ۔
(صحیح مسلم ، ج 2 ،ص 403، نور محمد اصح المطابع ، کراچی)
مزید پڑھیں:محراب اگر صف کے درمیان میں نہ ہو تو کیا حکم ہوگا؟
عیار ہوشیار اس حدیث کو لگ بچا گیا کہ یہاں تو سارے مکر کی قلعی کھلتی اور صاف ظاہر ہوتا کہ حدیث میں جس زمانے کی خبر دی ہے ؟ وبعد خروج و ہلاک دجال وانتقال عیسی علیہ اصلوۃ والسلام کے آئے گا اُس وقت کے لئے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ رہے گا جس طرح احمد و مسلم وترمذی کی حدیث میں انس رضی اللہ تعالی عنہ سے آیا سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا ”لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الارض الله الله ” قیامت نہ آئے گی جب تک زمین میں کوئی اللہ اللہ کہنے والا ر ہے۔
(صحیح مسلم ، ج 1 ،ص 84 ،نور محمد اصح المطابع، کر اچی )
اللہ اللہ یہ حدیث بھی مشکوۃ بحوالہ مسلم اسی باب کے شروع میں ہے مزور ( دھو کے باز ) چالاک دلدادہ اشراک برابر کی حدیثیں نقل کرتا تو مسلمانوں کو کافر و مشرک کیونکر بناتا اور اس جھوٹے دعوے کی گنجائش کہاں سے پاتا اپنے زمانے کی نسبت کہہ دیا” سو پیغمبر خدا کے فرمانے کے موافق ہوا”۔ مسلمان دیکھیں کہ جو عیار صریح واضح متداول حدیثوں میں ایسی معنوی تحریفیں کریں بے پر کی اڑانے میں اپنے باطنی معلم سے بھی کان کتریں جھوٹے مطلب دل سے بنائیں اور انہیں مصطفی ﷺکا قصور ٹھرائیں حالانکہ حضور سید عالمﷺ متواتر حدیث میں ارشادفرما ئیں ” من كذب علی متعمد افليتبوا مفعده من النار ” ترجمہ: جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باند ھے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔
(جامع الترمذی، ج 2 ،ص 90، امین کمپنی دہلی )
ایسوں کا مذہب معلوم اور عمل بالحدیث کا مشرب معلوم ۔جب اصول میں یہ حال ہے تو ظاہر ہے کہ فروغ مسائل فقہیہ میں حدیثوں کی کیا کچھ گت نہ بناتے ہوں گے، پھر دعوی یہ ہے کہ ہم تو خیر البریہ یعنی قرآن اور قول خیر البریہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یعنی حدیث پر چلتے ہیں ، سبحان اللہ یہ منہ اور یہ دعوی ۔ سچ فرما یا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ”یأتی فی آخر الزمان قوم حدثاء الاسنان سفهاء الاحلام يقولون من خير قول البرية يمرقون من الاسلام كما يمرق السهم من الرمية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم” آخر زمانہ میں کچھ لوگ حدیث السن ( زبانوں پر حدیث ) سفیہ اعقل ( عقل سے کورے) آئیں گئے کہ اپنے زخم میں قرآن یا حدیث سے سند پکڑیں گے وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے نکل جاتا ہے ایمان ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا۔
(صحیح البخاری ،ج 2 ،ص 756 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مزید پڑھیں:امام صف کے کس طرف کھڑا ہو؟
واقعی یہ لوگ اُن پرانے خوارج کے ٹھیک ٹھیک بقیہ و یادگار ہیں وہی مسئلے وہی دعوے وہی انداز وہی و تیرے ( طریقے ) خارجیوں کا داب ( دھوکہ دینے کا طریقہ ) تھا( کہ ) اپنا ظاہر اس قدر متشرع ( شریعت کے مطابق ) بناتے کہ عوام مسلمین انہیں نہایت پابند شرع جانتے پھر بات بات پر عمل بالقرآن کا دعوی عجب دام در سبزہ تھا مسلک وہی کہ ہم ہی مسلمان ہیں باقی سب مشرک۔ یہی رنگ ان حضرات کے ہیں آپ دحد اور سب مشرکین ، آپ محمدی اور سب بددین، آپ عامل بالقرآن والحدیث اور سب چنیں و چناں بزعم خبیشہ ، پھر ان کے اکثر مکلبین ظاہری پابندی شرع میں خوارج سے کیا کم ہیں اہلسنت کان کھول کرسن لیں دھوکے کی ٹٹی میں شکار نہ ہو جائیں، ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے صحیح حدیث میں فرمایا ”تحقرون صلاتكم مع صلاتهم وصيامكم مع صيامهم وعملكم مع عملهم ” تم حقیر جانو گے اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے سامنے ا ور اپنے روزے ان کے روزوں کے سامنے اور اپنے اعمال کو اُن کے اعمال کے مقابل۔
(صحیح البخاری ، ج 2، ص 756، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اس کے باوجود ) ارشاد فرمایا ” ویقرئون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السھم من الرمیۃ ”ان اعمال پر ان کا یہ حال ہوگا کہ قرآن پڑھیں گے پر گلوں سے تجاوز نہ کرے گا دین سے نکل جائیں گے۔ جیسے تیر شکار ہے۔
(صحیح البخاری، ج 2 ،ص، 756 قد یمی کتب خانہ،کراچی)
پھر شان خدا کہ ان مذہبی باتوں میں خارجیوں کے قدم بقدم ہونا در کنا خارجی بالائی باتوں میں بھی بالکل یک رنگی ہے انہی ابو سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے” قیل ما سيماهم قال سيماهم التحليق ”عرض کی گئی: یا رسول اللہ! ان کی علامت کیا ہوگی؟ فرمایا سر منڈانا۔ یعنی اُن کے اکثر سر منڈے ہونگے ۔
(صحیح البخاری ، ج ،ص 756، قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
بعض احادیث میں یہ بھی آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اُن کا پتا بتایا ”مشمری الازار ”گھٹنی از اروالے (یعنی شلوار زیادہ اوپر کرنے والے )۔
(صحیح البخاری ج 2 ،ص 1128، قدیمی کتب خانہ کرا چی )
مزید پڑھیں:غیر مقلد کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پر کیا دلیل ہے؟
اللہ تعالیٰ کے بے شمار درود یں حضور عالم ما کان و ما یکون پر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔ بالجملہ یہ حضرات ( خوارج سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ) یہ انھیں بھی نہ سوجھی تھی کہ شرک وکفر تمام مسلمین کا دعوی اس حدیث سے ثابت کر دکھاتے جس سے ذی ہوش مذکور نے استدلال کیا۔ مگر حضرت حق عز و جل کا حسن انتقام لائق عبرت ہے حضر بیر الا حبه فقد وقع فيه ( جو شخص کسی کے لئے کنواں کھودتا ہے خود اسی میں گرتا ہے ) حدیث سے سند لائے تھے مسلمانوں کے کافر و مشرک بنانے کو اور بجھ اللہ خود اپنے مشرک و کافر ہونے کا اقرار کر لیا کہ جب یہ وقت وہی ہے کہ روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں تو یہ مستدل بھی انھیں کافروں میں کا ایک ہے نضى الرجل على نفسه (آدمی نے اپنے خلاف فیصلہ کیا) ۔
اور مسلمانوں کو تو خدا کی امان ہے اُن کے لئے ان کے سچے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سچی بشارت آئی ہے کہ یہ امتِ مرحومہ ہرگز شرک اور اور غیر خدا کی پرستش نہ کرے گی ۔ امام احمد مسند اور ابن ماجہ سنن اور حاکم مستدرک اور بیہقی شعب الایمان میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور پر نو رسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی امت کی نسبت فرماتے ہیں” اما انهم لا يعبدون شمسا ولا قمرا ولا حجرا ولا وثنا ولكن يراؤن با عمالهم ” خبر دار ہو بیشک وہ نہ سورج کو پوجیں گے نہ چاند کو نہ پتھر کو نہ بت کو ، ہاں یہ ہوگا کہ دکھاوے کے لئے اعمال کریں گے۔
(المسند لامام احمد بن حنبل ، ج 4، ص 124 ، دارالفکر، بیروت )
اسی لئے جب قیامت آنے کو ہو گی اور شرک محض کا وقت آئے گا ہوا بھیج کر مسلمانوں کو اٹھا لیں گے و الحمد لله رب العلمين۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 656 تا 668