:سوال
مروجہ فاتحہ جس میں کھانا سامنے رکھ کر درود و قرآن پڑھ کر ثواب میت کو پہنچاتے ہیں اور وہ کھا نا محتاج کو دے دیتے ہیں جائز ہے یا نہیں؟ زید کہتا ہے کھانا محتاج کو دینے سے پہلے ثواب میت کو نہیں پہنچا سکتے لہذا پہلے کھانا دے اس کے بعد ثواب پہنچائے ، اور کہتا ہے کہ کھانا سامنے رکھ کرنا جائز و نا روا ہے۔ آیا اس کا یہ قول صحیح ہے یا غلط؟
:جواب
فاتحہ بہیئت مروجہ جس طرح سوال میں مذکور، بلاریب ( بلا شک ) جائز ومستحسن ہے، اہل سنت کے نزدیک اموات کو ثواب پہنچانا ثابت ہے، اور اس بارے میں حدیثیں صحیح اور روایتیں فقہی معتبر ( فقہی قابل اعتبار روایات) بہ کثرت وارد باقی رہاکھانا و قرآت کا جمع ، خود ان کے امام الطائفہ معلم ثانی اسمعیل دہلوی نے صراط مستقیم میں اس اجتماع کو بہتر کہا، کما حيث قال ” جب میت کو نفع پہنچا نا منظور ہو کھانا کھلانے پر ہی موقوف نہ رکھے، اگر میسر ہو تو بہتر ورنہ صرف سورہ فاتحہ و اخلاص کا ثواب بہترین ثواب ہے۔“
(صراط مستقیم ص 64، المكتبة السلفیہ، لاہور )
اور قبل اس کے کہ صدقہ محتاج کے ہاتھ میں پہنچے تو اب اس کا میت کو پہنچانا جائز اور حدیث سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ سنن ابی داؤ د وسنن نسائی میں مروی ثابت انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میری ماں نے انتقال کیا تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: پانی، انہوں نے کنواں کھود کر کہا: یہ سعد کی ماں کے لئےہے۔
(سنن ابي داؤر، ج 1، ص 236، آفتاب عالم پریس، لاہور )
مزید پڑھیں:کیا ضعیف حدیث قابل حجت ہے؟
اس سے صاف متبادر یہ کہ کنواں تیار ہو جانے پر یہ الفاظ کہے، اور ایک دو دن یا دس ہیں برس بھی سہی تو صرف اس قدر پانی کا ثواب پہنچانا منظور تھا جو اس وقت آدمیوں، جانوروں کے صرف میں آیا، حاشا ( ہرگز نہیں ! بلکہ جب تک کنواں باقی رہے گا بحكم هذه لام سعد سب کا ثواب مادر سعد کو پہنچے گا اور سب کا ایصال منظور تھا تو قبل تصرف ایصال ثواب ہر طرح حاصل اور خود احادیث مرفوعہ کثیرہ سے ثابت کہ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم نےثو اب عمل قبل عمل ایصال فرمایا۔ زید کہ اسے نا جائز کہتا ہے حدیث کی مخالفت کرتا ہے، بات یہ ہے کہ فاتحہ ایصال ثواب کا نام ہے ، اور مومن کو عمل نیک کا ایک ثواب اس کی نیت کرتے ہی حاصل ، اور عمل کئے پر دس ہو جاتا ہے، جیسا کہ صحیح حدیثوں میں ارشاد ہوا، بلکہ متعد حد یثوں میں فرمایا
گیا کہ ((نية المؤمن خير من عمله) مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
(الفردوس بماثور الخطاب، ج 4 ص 286، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
مزید پڑھیں:فوت شدہ کے لیے فاتحہ خوانی کروانا کیسا؟
فاتحہ میں دو عمل نیک ہوتے ہیں : قرآت قرآن وکھانا کھانا – طریقہ مروجہ میں ثواب پہنچانے کی دعا اس وقت کرتے ہیں جب کہ کھانا دینے کی نیت کر لی اور کچھ قرآن عظیم پڑھ لیا تو کم سے کم گیارہ ثواب تو اس وقت مل سکے، دس ثواب قرآت کے اور ایک نیت کھانا کا، کیا انہیں میت کو نہیں پہنچا سکتے ؟ رہا کھانا دینے کا ثواب، وہ اگر چہ اس وقت موجود نہیں تو کیا ثواب پہنچانا شاید ڈاک یا پارسل میں کسی چیز کا بھیجنا سجھنا ہوگا کہ جب تک وہ شے موجود نہ ہو، کیا بھیجی جائے، حالانکہ اس کا طریقہ صرف جناب باری میں دعا کرنا ہے کہ وہ ثواب میت کو پہنچائے، کیا دعا کرنے کے لئے بھی اس شے کا موجود فی الحال ہونا ضروری ہے،
مگر ہے یہ کہ جہالت سب کچھ کراتی ہے، اور وقت فاتحہ کھانے کا قاری کے پیش نظر ہونا اگر چہ بے کار بات ہے مگر اس کے سبب سے وصول ثواب یا جواز فاتحہ میں کچھ خلل نہیں، جو اسے ناجائز و ناروا کہے ثبوت اس کا دلیل شرعی سے دے ورنہ اپنی طرف سے حکم خدا اور سول کسی چیز کونا روا کہہ دینا خد اور سول پر افتراء کرنا ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا سامنے نہ کیا جائے گا تو اب نہ پہنچے گا، تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے، لیکن نفس فاتحہ میں اس اعتقاد سے بھی کچھ حرف نہیں آتا ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 565