چاند دیکھنے سے متعلق کچھ ضروری مسائل
:سوال
چاند دیکھنے سے متعلق کچھ ضروری مسائل ارشاد فرما دیں۔
:جواب
مسئلہ نمبر: 1
انتیس 29 شعبان کو غروب آفتاب کے بعد ہلال رمضان کی تلاش فرض کفایہ ہے۔
فرض کفایہ، یعنی سب ترک کریں تو سب گناہگار، اور بعض بقدر کفایت کریں تو سب پر سے اُتر جائے ، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ شاید شعبان 29 کا ہو جائے تو کل سے رمضان ہے۔ اگر چاند کا خیال نہ کیا تو عجب نہیں کہ ہو جائے اور یہ بے خبررہیں، تو گل شعبان سمجھ کر نا حق رمضان کا روزہ جائے۔
بقدر کفایت ، فقیر نے یہ لفظ اس لیے زائد کر دیا کہ اگر التماس ہلال ( چاند کی تلاش ) ایسے شخص نے کیا جس کا بیان عند الشرع مقبول نہ ہو تو اُس کا التماس کرنا یہ کرنا نہ کر ان یکساں ہوا اور مقصود شرع کہ اُس کے ایجاب سے تھا یعنی ثبوت ہلال ، وہ حاصل نہ ہوا۔ مثلاً صفائے مطلع کی حالت میں صرف ایک آدمی نے تلاش کیا یا ہلال عیدین میں فقط عورتوں یا غلاموں نے تلاش کی۔
مسئلہ نمبر: 2
یوں ہی 29 رمضان کو ہلال عید کی ۔
اگر چاند ہو گیا اور نہ دیکھا تو نا دانستہ عید کے دن روزہ حرام میں مبتلا ہوں گے۔
مسئلہ نمبر :03
انتیس 29 ذیقعدہ کو ہلال ذی الحجہ کی تلاش بھی ضروری ہے۔
یہ یوں ضروری ہوا کہ حج و نماز عید و قربانی و تکبیرات تشریق کے اوقات جاننے اس پر موقوف ہیں، تو اس کی تلاش عام لوگوں پر واجب کفایہ ہونی چاہئے اور اہل موسم پر فرض کفایہ کہ وہاں بے خیالی میں چاند 29 کا ہو گیا اور بنا رکھا 30 کا، تو وقوف عرفہ کہ حج کا فرض اعظم رکن اکبر ہے، اپنے وقت سے باہر یوم الخر میں واقع ہو گا اور عام لوگوں کو کسی فرض میں خلل کا اندیشہ نہیں پر واجبات میں وقت آئے گی
مثلا کسی ضروت سے نماز عید کی تاخیر بارہویں تک چاہی تو یہ جسے بارہویں سمجھے ہیں وہ تیرہویں ہے۔ اور ایام نماز کہ ایام نحر تھے گزر چکے، نماز بے وقت ہوئی ، بہت لوگ بار ہوئیں کو قربانی کرتے ہیں، ان کی قربانیاں بے وقت ہونگی، عرفہ کی صبح سے ہر نماز کے بعد تکبیر واجب ہوتی ہے، واقع میں جو عرفہ ہے یہ اُسے آٹھویں جان کر تکبیریں نہ کہیں گے۔
مسئلہ نمبر: 4
انتیس 29 رجب کو ہلال شعبان، ۲۹ شوال کو ہلال ذیقعدہ کی بھی تلاش کریں۔
ہلال شعبان کی تلاش کا حکم خود حدیث میں ہے ، حکمت اس میں یہ ہے کہ جب رمضان کا چاند بوجہ ابر نظر نہیں آیا تو حکم ہے کہ شعبان کی گنتی تیس پوری کر لیں ، جب شعبان کا چاند بہ حق نہ معلوم ہوگا تو اس کی گنتی پر کیا یقین ہو سکے گا۔ یوں ہی اگرذی الحجہ کا چاند نظر نہ آئے تو ذیقعدہ کی گنتی میں رکھیں گے، اور وہی بات یہاں پیش آئے گی۔
تنبیہ : لوگ تین قسم ہیں : (1) عادل (2) مستور (3) فاسق ۔
عادل وہ جو مر تکب کبیره یا خفیف الحرکات نہ ہو۔ اور مستور پوشیدہ حال جس کی کوئی بات مسقط شہادت معلوم نہیں۔ اور فاسق جو ظاہر ابدا فعال ہے۔
عادل کی گواہی ہر جگہ مقبول ہے اور مستور کی ہلال رمضان میں، اور فاسق کی کہیں نہیں ۔ پر بعض روایات کے بعض الفاظ بظاہر اس طرف جاتے ہیں کہ رمضان میں فاسق کی شہادت بھی سن لیں ۔ ممکن ہے کہ اُس شہر کا حاکم شرع یہی خیال رکھتا ہو، اگر چہ محققین نے اسے رد کر دیا۔ تو جس فاسق کو معلوم ہو کہ یہاں کے حاکم کا یہ مسلک ہے اس پربیثک گواہی دینی واجب ہو گی ورنہ نہیں، اور رمضان میں جبکہ عادل ومستور کا ایک حکم ہے، تو اس وجوب میں بھی یکساں رہیں گے۔ رہا عادل ، جب وہ دائم المقبول ہے تو اُس پر وجوب بھی مطلقا ہے یعنی رمضان ہو خواہ عید الفطر خواہ عید الاضحی۔
پھر وجوب کا سبب یہ ہے کہ اگر دیکھنے والے نے اسی شب گواہی نہ دی تو ہلال رمضان میں صبح کو لوگ بے روزہ اٹھیں گئے اور ہلال فطر میں روزہ دار۔ اور یہ دونوں نا روا جس کا الزام گواہی نہ دینے والے پر ہوگا، (لہذا اس صورت میں گواہی میں تا خیر نہیں کرنا جائز نہیں)۔ مگر ہلال ذی الحجہ میں آٹھویں تک کوئی حاجت ایسی نہیں جو بوجہ تاخیر خلل پذیر ہو، بس یوں معلوم ہو جاناچاہئے کہ فجر عرفہ سے لوگ تکبیر میں مشغول ہوں اور حجاج سامان وقوف کریں۔
مسئلہ نمبر:5
ہلال دیکھنے والے عادل پر مطلقا اور مستور پر رمضان میں ، اور فاسق پر جب سمجھے کہ حاکم میری گواہی مان لے گا واجب ہے کہ رمضان و عید الفطر میں اسی شب اور ذی الحجہ میں آٹھویں تک حاکم شرع کے پاس حاضر ہو کر رویت پر گواہی دے۔
مسئلہ نمبر:6
یہاں تک زن پردہ نشین ( پردہ دار عورت ) نکلے اگر چہ شوہر اذن (اجازت) نہ دے، اگر چه کنیز اجازت مولی نہ پائے۔ اگر سمجھیں کہ ثبوت رؤیت ہم پر موقوف ہے ورنہ یہ نکلنانا جائز ہوگا۔
مسئلہ نمبر:7
جہاں ریاستیں اسلامی ہیں اُن بلاد میں جو عالم دین سنی المذہب سب سے زیادہ علم فقہ رکھتا ہو وہ بحکم شرع سردار مسلمانان ہے، مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنی دینی باتوں میں اُسی کی طرف رجوع کریں اور اُس کے فتووں پر عمل کریں، تو چاند دیکھنے پر بھی واجب ہے کہ اُس شب اُس کے حضور ہو کر ادائے شہادت کرے۔
تنبيہ : آج کل اسلامی ریاستوں میں بھی قضاة و حکام اکثر بے علم ہوتے ہیں، تو عالم دین اُن پر بھی مقدم ۔ اور وقت اختلاف فتوی عالم پر ہی عمل واجب۔
حکایت : امام الحرمین ابوالمعالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے زمانے میں بادشاہ وقت کے یہاں 29 کے ہلال پر گواہیاں گزریں۔ بحکم سلطان اعلان ہوا کہ کل عید ہے۔ یہ خبرامام الحرمین کو پہنچی۔ گواہاں قابل قبول نہ تھیں، امام کے حکم سے معا دوسرا اعلان ہوا کہ بحکم امام ابو المعالی کل روزہ ہے۔ صبح کو تمام شہر روزہ دار تھا۔ حاسدوں نے یہ خبر خوب رنگ کر بادشاہ تک پہنچا ئی کہ ا گروہ سچے ہیں تو سلطنت چھین لیں۔ ملاحظہ ہو کہ انہیں کا حکم مانا گیا اور حکم سلطان کی کچھ پروانہ ہوئی ۔ بادشاہ نے برافروختہ ہو کر چوب داربھیجے کہ جیسےبیٹھے میں تشریف لائیں۔
امام ایک جبہ پہنے تھے، ایسے ہی دربار میں رونق افروز ہوئے، اشتعال شاہی دو بالا ہوا کہ لباس در باری نہ تھا سوال ہوافرمایالعاعت اولوالامر واجب ہے۔ حکم تھا جیسے بیٹھے ہیں آئیں، میں یوں ہی بیٹھا تھا چلا آیا، کہا: اعلان خلاف پر کیا باعث تھی ؟ فرمین تیم مدنی تمہارے سپرد ہے اور انتظام دین ہمارے متعلق ۔ بادشاہ پر ہیبت حق طاری ہوئی ۔ با عز از تمام رخصت کیا اور بدگویوں کو سزا دی
تنبیہ علم دین فقہ وحدیث ہے، منطق و فلسفہ کے جاننے والے علماء نہیں، یہ امور متعلق بہ فقہ میں تو جو نقش زیورہ ہے وہی بڑا عالم دین ہے اگر چہ دوسرا حدیث تفسیر سے زیادہ اشتعال رکھتا ہو۔ پھر عالم دین نہ ہوگا مگر سنی امید جب کہ فاسد العقیدہ جہل مرکب میں گرفتار جو جہل بسیط سے ہزار درجہ بدتر خصوصاً غیر مقلدین کہ فقہ وفتوی میں ان پر اعتماد تو یہ ہے جیسے چور کو پاسبان بتاتا
مسئلہ نمبر:8
جہاں کوئی عالم بھی نہ ہو، مجمع مسلمین مثلا مسجد جامع وغیرہ میں گواہی دیں۔
مسئلہ نمبر:9
جو بلاغذ ر گواہی دینے میں تاخیر کریگا پھر کہے گا میں نے دیکھا تھا اُس کی گواہی مردود ہوئی۔ عذر کی صورت یہ کہ مثلاً شہر میں نہ تھا دیہات میں دیکھا، وہاں سے اب آیا ہے، تو اس کی گواہی سن لیں گے، اور تاخیر سے وہی مراد کہ وقت حاجت کے بعد پھر نہ اُٹھا رکھے کہ ہلال رمضان و عید الفطر میں پہلی ہی شب ہے۔
مسئلہ نمبر:10
جب چاند پر نظر پڑے اور دیکھنے والوں کی گواہی کفایت نہ کرتی ہو، فورا جہاں تک بن پڑے ایسے مسلمانوں کو دکھا دیں ، جن کی گواہی کافی ہو اور ویسے بھی دکھا دینا چاہئے کہ کثرت بہر حال بہتر ہے۔
(مثلا) مطلع اگر صاف نہیں ، دفعتاً ابر ہٹا اور اسے چاند نظر پڑا ، اب یہ اس قابل نہیں کہ ان کی گواہی مسموع ہو خواہ فاسق ہے یا مستور یا اکیلا یا صرف عوتیں یا غلام ہیں اور ہلال ہلال عیدین تو ان لوگوں کا دیکھنا کافی نہ ہوگا۔ اور عجب نہیں کہ ابرپھر آجائے۔
لہذا نہایت تحمیل کر کے ایسے معتمد مسلمانوں کو دیکھا دے جن کی گواہیاں کفایت کر جائیں، اس صورت میں ز شرط قدرت معتمدین کو دکھا نا لازم ہونا چاہئے۔
اور اگر ایسا نہیں بلکہ خودان کی گواہی بس ہے، تاہم اور وں کا دکھانا اچھا ہی ہے کہ کثرت شہود بہر حال بہتر ہے عجب کیا کہ یہ اپنے نزدیک اپنی گواہی کافی سمجھیں اور حاکم شرع کو کسی وجہ سے اعتبار نہ آئے تو اور شہود کی حاجت پڑے۔
مسئلہ نمبر:11
جس شام احتمال ہلال ہو جب تک حکم حاکم شرعی یا توی عالم دین نہ ہو ہرگز ہرگز کسی وجہ سے بندوقیں یا آواز کی آتش بازی اپنے دنیوی کاموں کے لیے بھی ہرگز نہ کریں۔
کیونکہ: اصطلاح کیوں ٹھہری ہوئی ہے کہ جہاں اسلامی ریاست ہے بعد تحقیق ہلال توپ کے غیر ہوتے ہیں اور شہروں میں بندوقیں یا ہوائیاں وغیرہ چھوڑتے ہیں ، اب اگر ثبوت شرعی ہو گیا اور حاکم شرح نے بھی حکم دے دیا جب توفعل مستحسن ہے کہ ایک نیت صالحہ سے کیا جاتا ہے اور اشتہاری کا نا جائز ہونا بوجہ اضاعت مال تھا یہاں جاری نہیں کہ بعد غرض محمود کے اضاعت کہاں۔
ورنہ دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اعلان ہلال کے وا اور کسی وجہ سے یہ فعل کریں، مثلا دوست کے گھر بیٹا پیدا ہوا، بندوقیں سرکیں، یا خالی بیٹھے مال ضائع کرنا چاہا، ہوائیاں ، ناٹریاں، تو مڑیاں چھوڑیں۔ یہ ممنوع ہے کہ اس میں مسلمانوں کو دھوکا ہوگا۔
دوسرے یہ کہ جاہلوں نے جو اپنے جاہلانہ مسئلوں سے بے حکم حاکم و فتوی عالم اپنے نزدیک رؤیت کی خبر ٹھیک جان کر پٹاخه بازی شروع کردی۔ اور یہ بھی زیادہ نا جائز و حرام ہے کہ منصب رفیع شرع پر جرات ہے۔
مسئلہ نمبر:12
ہلال دیکھ کر اس کی طرف اشارہ نہ کریں، کہ افعال جاہلیت سے ہے۔
مسئلہ نمبر: 13
ہلال دیکھ کر منہ پھیر لے۔ حدیث میں ہے
( ان النبی صلى الله تعالى عليه وسلم كان اذار أى الهلال صرف وجهه عنه)
ترجمہ: حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے اپنا منہ مبارک اس کی طرف پھیر لیتے۔
سن ابي داؤد، ج 2 می 339، آفتاب عالم پریس، لاہور )
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ شر کی چیز ہے یا یہ کہ کفار نے اُس کی عبادت کی اور شرع میں اُسے دیکھ کر اللہ جل جلالہ سے دُعا کرنی آئی، تو پسندیدہ ہوا کہ منہ پھیر کر کی جائے تا کہ کفار سے مشابہت نہ لازم آئے ۔
واللہ و رسوله اعلم صلى الله تعالى عليه وسلم
مسئلہ نمبر: 14
یہ جو جاہلوں میں مشہور ہے کہ فلاں چاند تلوار پر دیکھے فلاں آئینے پر ۔ یہ سب جہالت و حماقت ہے، بلکہ حدیث میں جو دعا ئیں وہ پڑھنی کافی ہیں۔
مسئلہ نمبر:15
چاند جب بھی نظر پڑے تو اس کے شر سے پناہ مانگے ۔
مسئلہ نمبر:16
اہل ہئیات کی بات کا کچھ اعتبار نہیں اگر چہ عادل ہوں اگر چہ کثیر ہوں ، نہ ہی خود اس پر عمل جائز۔
اہل ہیئت وہ لوگ جو آسمانوں کے حال اور ستاروں کی چال سے بحث کرتے ہیں، وہ اپنے حساب سے بتاتے ہیں کہ فلاں دن رؤیت ہوگی فلاں مہینہ انتیس 29 کا ہو گا فلاں تیس 30 کا۔ پھر اُن کی بات کہ ایک حساب ہے ٹھیک بھی پڑتی ہے، پر صحیح مذہب میں اُس کا کچھ اعتبار نہیں اگر چہ واثقہ عادل ہوں، اگر چہ ان کی جماعت کثیر یک زبان ایک ہی بات پر اتفاق کرے۔ مثلا وہ 29 شعبان کو کہیں آج ضرور رویت ہوگی کل یکم رمضان ہے۔ شام کو ابر ہو گیا، رویت کی خبر معتبر نہ آئی، ہم ہرگز رمضان قرار نہ دیں گے، بلکہ وہی یوم الشک ٹھہرے گا، یا وہ کہیں آج رؤیت نہیں ہو سکتی، کل یقین 30 شعبان ہے، پھر آج ہی رؤیت پر معتبر گواہی گزری، فورا قبول کر لیں گے اور کچھ خیال نہ کریں گے کہ بر بنائے ہیئت تو آج رؤیت نا ممکن تھی۔ گواہ نے دیکھنے میں غلطی کی، یا غلط کہا، دلیل اس مسئلے اور اکثر مسائل آئندہ کی یہ ہے کہ شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صوم و فطر کا حکم رو ئیت پر معلق فرمایا،صحیحین وغیرہما میں بطریق کثیرہ بہت صحابہ رضوان اللہ تعالی علیم سے مروی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
(صومو الرؤيته وأفطر الرؤيته فان اغمى عليكم فاكملوا عدة شعبان ثلثین)
ترجمہ چاند دیکھ روزہ رکھو، چاند دیکھ کرختم کرو۔ اور اگر مطلع صاف نہ ہو تو میں کی گنتی پوری کر لو۔
پس ہمیں اسی پر عمل فرض ہے، باقی رہا حساب ، اسے خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یک لخت ساقط کر دیا ، صاف ارشاد فرماتے ہیں
( انا امية لا تكتب ولا تحسب الشهر هكذا وهكذا و الشهر هكذا وهكذا)
ترجمه: ہم امی امت ہیں، نہ لکھیں نہ حساب کریں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں تین بار اٹھا فرمایا مہینہ یوں اور یوں اور یوں ہوتا ہے۔ تیسری دفعہ میں انگوٹھا بند فرمایا یعنی انیس اور مہینہ ہوں اور یوں ہوتا ہے، ہر بار سب انگلیاں گھلی رکھیں یعنی تیس۔
ہم اپنے نبی امی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امی امت ہیں، ہمیں کسی کے حساب کتاب سے کیا کام، جب تک رؤیت ثابت نہ ہوگی نہ کسی کا حساب سنیں ، ہ تحریر مانیں، نہ قرائن دیکھیں، نہ انداز آجائیں۔
تنبیہ : اس مسئلہ کے یہ معنی ہیں کہ جو بات وہ بطور بینات کہیں مقبول نہیں ورنہ اگر شہادت رؤیت ادا کریں تو مثل اور لوگوں کے ہیں، جن شرائط سے اوروں کی گواہی سنی جاتی ہے اُن کی بھی گواہی قبول ہوگی۔
پھر اُن کا قابل شہادت ہونا بھی ہے کہ بینات و نجوم کی خلاف شرع باتوں پر اعتقاد نہ کرتے ہوں صرف صناعی طور پر آسمان کی گردشوں، ستاروں کی چالوں ، طلوع و غروب، جوع و استقامت بطو و سرعت، قرآن تسدیس ترجیح، تثلیث مقابلہ اجتماع وغیرہ سے بحث کرتے ہوں، ورنہ مثلا امور غیب پر احکام لگانا ، سعد و نحس کے خرخشے اٹھانا ، زائچہ کے راہ پر چلنا چلانا اوتا داربع طالع رابع عاشر سال پر نظر رکھنا زائلہ مائلہ کو جانچنا پر کھنا شرعا اجر (ممنوع) ہے، اور اعتقاد کے ساتھ ہوتو قطعاً کفر، والعیاذ بالله رب العالمین۔
اسی قبیل سے ہے ان کا کہنا کہ فلاں دن رؤیت واجب ہے فلاں دن محال ۔ اگر وجوب و استحالہ عادی مراد لیتے ہیں تو
مسئلہ نمبر:17
اخیر میں ( چاند ) دو ایک رات ضرور بیٹھتا ہے، پر شریعت میں اس پر مدار حکم نہیں۔
خیر کہ یہ اللہ کیلئے تبدیل نہیں اور نہ حقیقی و عقلی کا قصد معاذ اللہ کھلا ہو کفر ہے۔ مہینہ انتیس کا ہوتا ہے تو ایک رات بیٹھنا ہے،تیس کا ہو تو دورات، پھر آج صبح کو طلوع شمس سے پہلے چاند جانب شرق نظر آیا تھا اور آج شام کی نسبت شہادت شرعی رؤیت پر گزری، بلاشبہ قبول کی جائے گی اور یہ لحاظ نہ ہوگا کہ آج صبح تک تو چاند موجود تھا بن ڈوبے کیونکر ہلال ہو گیا۔
مسئلہ نمبر:18
انتیس 29 رات کی صبح کو چاند نظر نہیں آتا ، شرع اسے بھی نہیں سنتی۔
یہ دعوی دعوی سے اخص ہے وہاں دو ایک رات بیٹھنا تھا، عام از یں کہ 20 کو ڈوبے یا 30 کو، یہاں خاص دعوی ہے کہ 28 کو ضرور ڈوبتا ہے، شرع میں اس پر بھی لحاظ نہیں۔ مثلا 29 شعبان روز یکشنبہ (اتوار) کو شام کے وقت ابر تھا، گواہان شرقی نے رویت بیان کی صبح کو رمضان ٹھہرا ، اب جو گنتی ہوئی آئی تو 29 رمضان دوشنبہ ( پیر) کو طلوع شمس سے پیشتر چاند موجود تھا، اس پر کوئی خیال کرے دوشنبہ کی پہلی ہوئی تو آج 29 کو چاند صبح کے وقت کیونکر نظر آتا ضرور ہے کہ گواہوں نے غلطی کی شعبان 30 کا ہوا، آج 28 ہے ابر ہوا تو اسی حساب پر رمضان کے 30 پورے ہوں گے تو یہ خیال محض غلط ہوگا بلکہ وہی دوشنبہ کی 29 ٹھہرے گی اوراس پر بناء احکام رہے گی۔
مسئلہ نمبر 19
دن کو دو پہر سے پہلے چاند جب ہی نظر آتا ہے کہ شب گزشتہ بلال ہو چکا ہو، پر صحیح مذہب میں اس کا بھی لحاظ نہیں۔
مثلا پنجشنبه ( جمعرات ) 29 شعبان یا 29 رمضان کو ابر تھا رؤیت نہ ہوئی جمعہ کی دو پہر سے پہلے چاند نظر آیا تو اگرچہ قیاس یہی چاہتا ہے کہ شب جمعہ میں ہلال ہو گیا، ورنہ دو پہر سے پہلے نظر نہ آتا۔ تو آج پہلی ہونی چاہئے۔ مگر صحیح مذہب میں اس کاکچھ لحاظ نہ ہوگا اور آج تیس ہی ٹھہرے گی۔
مسئلہ نمبر 20
چاند کے بڑے ہونے کا کچھ خیال نہ چاہئے۔
بہت لوگ چاند کو بڑا دیکھ کر کہنے لگتے ہیں کہ کل کا ہے یا آج 29 نہ تھی 30 تھی کہ 29 کا چاند اتنا بڑا نہیں ہوتا، یہ اُن کی خام خیالی ہے، شرعی معاملے تو او پر ہو چکے کہ وہاں قیاسی باتوں کا دخل نہیں اور بطور علم بیات ہی چلے تو ان شاء اللہ تعالی فقیر ثابت کر سکتا ہے کہ 29 کا چاند بعض 30 کے چاندوں سے بڑا ہونا ممکن ۔ اور سب سے بڑھ کر دافع اوہام یہ ہے کہ طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبدا اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضرت سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
( اقتراب الساعة انتفاخ الاهلة)
ترجمہ: قرب قیامت ایک اثر یہ ہے کہ ہلال بڑے نظر آئیں گے۔
(کنز العمال جوال مجهم الكبير 14ج ص 220 مکتبة التراث الاسلامی مصر)
مسئلہ نمبر :21
نہ اس کے اونچے ہونے پر نظر نہ اس کے دیر تک ٹھہرنے پر التفات۔
بہت لوگ چاند اونچا دیکھ کر بھی ایسی ہی انگلیں دوڑاتے ہیں، بعض کہتے ہیں اگر 29 کا ہوتا تو اتنانہ ٹھہرتا۔ یہ سب بھی ویسے ہی اوہام ہیں جن پر شرع میں التفات نہیں، خصوصا یہ باتیں تو از روئے بیات بھی کلیہ نہیں ہوسکتیں، میں ان شاء اللہ تعالی ثابت کر سکتا ہوں کہ کبھی 29 کا 30 کے بعض ہلالوں سے اونچا اور دیر پا ہونا متصور ۔
مسئلہ نمبر:22
آج کا ہلال شفق سے پہلے ڈوبتا ہے کل کا بعد کو، یہ بھی معتبر نہیں۔
شفق سے مراد شفق احمد ہے یعنی وہ سرخی جو غروب آفتاب کے بعد جانب مغرب رہتی ہے۔ عادت یوں ہے کہ جو ہلال اسی شب ہو اوہ اس سرخی کے غائب ہونے سے پہلے ڈوب جاتا ہے، اور جو کل ظاہر ہوا تھا اس کے بعد غروب کرتا ہے۔ پھر یہ بھی تجربہ کی بات ہے صحیح مذہب میں اس پر اعتماد نہیں۔
مسئلہ نمبر:23
تیسری رات عشاء سے پہلے چاند نہیں ڈوبتا، پر یہ بھی قابل لحاظ نہیں۔
عادت اکثری یوں ہے کہ تیسری شب کا چاند غروب نہیں کرتا جب تک عشاء کا وقت نہ آجائے ۔ پر معاملہ ہلال میں شرعاً اس پر بھی التفات نہیں مثلاً گواہی گزری کہ آج چاند ہوا، کل جمعہ کی یکم رمضان ہے اب شنبہ (ہفتہ) کے بعد جو شب یکشنبہ (اتوار کی رات ) آئی کہ اس شہادت کی رُو سے تیسری شب تھی، اس میں دیکھا تو چاند مغرب ہی کے وقت عشاء کا وقت آنے سے پہلے ڈوب گیا جس کے سبب گمان ہوتا ہے کہ آج شب دوم ہے اس کا کچھ خیال نہ کریں گے اور تیسری ہی رات قرار دیں گے۔
مسئلہ نمبر:24
چودھویں کا سورج ڈوبنے سے پہلے لکھتا ہے، پندرھویں کا بیٹھ کر، یہ دونوں بھی نا معتبر ہیں۔
حاکم شرع یا عالم دین نے شہادت شرعیہ لے کر شعبان کا مہینہ 29 کا ٹھہرایا اور کل بروز جمعہ رمضان کا حکم دیا، اب اس حساب سے شب جمعہ 15 کو چاند غروب سے پہلے نکلا، تو بہت جاہل اعتراض کر ینگے کہ وہ حکم غلط تھا بلکہ 30 کا چاند ہوا، اور ہفتہ کی پہلی ، جب ہی تو آج چاند بیٹھ کرنہ چپکا، یا حاکم و عالم نے گواہی نا کافی سمجھ کر شعبان کی گنتی 30 پوری کی ، شنبہ (ہفتہ) سے یکم رمضان رکھی ۔ شب جمعہ میں چاند بیٹھ کر نکلا جاہل لوگ کہیں گے کیوں صاحب!ہفتہ کی پہلی سے تو آج شب بدر ہوتی ہے یہ چاند بیٹھ کر کیوں نکلا، ضرور جمعہ کی پہلی تھی اور آج پندرھویں۔ یہ اور اس قسم کے سب خیالات محض مہمل و بیہودہ ہیں جن پر اصلا مدار احکام نہیں، نہ حاکم و عالم پر شرع یہ لازم فرمائے کہ عند اللہ جو بات نفس الامر میں ہے اس پر مطلع ہو جائیں کہ یہ تکلیف مالا یطاق ہے، بلکہ شرع ان پر یہی فرض کرتی ہے کہ دلیل شرعی سے جو بات ثابت ہو اس پر عمل کرو، عام از میں کہ عند اللہ کچھ ہو۔
علاوہ بریں چاند کا چودھویں کو غروب شمس سے پہلے نکلنا اگر چہ اکثری ہے، اور اسی لئے اسے بدر کہتے ہیں مگر حساب بیات بھی اس کا خلاف ممکن۔
مسئلہ نمبر: 25
غلط ہے کہ ہمیشہ رجب کی چوتھی رمضان کی پہلی ہو۔
عوام میں مشہور ہے کہ سال میں جس دن رجب کی چوتھی اسی دن آکر رمضان کی پہلی پڑے گی۔ یہ بات محض بے اصل ہے، اس کا شرعی نہ ہونا تو خود ظاہر تجربہ بھی خلاف پر شاہد۔ بعض دفعہ رجب کی تیسری اور رمضان کی پہلی مطابق ہوئی ہے۔
مسئلہ نمبر: 26
رمضان کی پہلی ذی الحجہ کی دسویں ہونا بھی ضروری نہیں۔
کہیں مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعض آثار میں آگیا کہ تمہارے روزہ کا دن وہی تمہاری قربانی کا دن ہے، یہ اس سال کا ایک واقعی بیان تھا، نہ کہ ہمیشہ کے لیے حکم شرعی ہو، بار ہا یکم رمضان و د ہم ذی الحجہ مختلف پڑتی ہیں، مثلاً یکم رمضان جمعہ کی ہو اور رمضان شوال ذیقعدہ تینوں مہینے 29 کے تو عید اضحی چہارشنبہ (بدھ) کی ہوگی اور دو 29 کے تو پنجشنبہ (جمعرات) کی ، اور تینوں تھیں 30 کے تو شنبہ (ہفتہ) کی۔ ہاں دوتیس کے اور ایک 29 کا، تو بے شک جمعہ کی پڑے گی۔ پھر یونہی ہونا کیا ضرور ہے
مسئلہ نمبر:27
اکثری سہی کہ اگلے رمضان کی پانچویں اس رمضان کی پہلی ہوتی ہے، پر شرع میں اس پراعتماد ہیں۔
مسئلہ نمبر:28
برابر چار مہینے سے زیادہ 29 کے نہیں ہوتے ، پر اس پر بھی مدار نہیں ۔
مثلا ربیع الآخر جب تک چار مہینے 29 کے ہوتے آئے ، اب شعبان کی 29 کو شہادت رؤیت گزری، بلاشبہ مقبول
ہوگی، اور یہ خیال نہ کریں گے کہ 5 برابر 29 کے ہوئے جاتے ہیں۔
مسئلہ نمبر:29
ان امور میں خط کا اعتبار جس طرح عوام میں رائج محض مردود ہے اگر چہ مہر شدہ ہو اور کاتب ثقہ اور خط معروف ۔
تنبیہ :خط بعض صورتوں میں مقبول ہوتا ہے ، کتاب القاضی الی القاضی یعنی ( حاکم شرع ) حاکم شرع کو خط لکھے وہ بشرائط کثیر حجت ملزم ہے۔
مسئلہ نمبر:30
تار محض مہمل اور نا قابل التفات اگر چہ متعدد شہروں سے وار ہو۔
مسئلہ نمبر:31
بازاری افواہ اصلاً کوئی چیز نہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ خبر رؤیت کا شہر میں شہرہ اور عام عوام کی زبان پر چاند چاند کا چرچا ہو گیا، پھر تحقیق کیجئے تو کچھ اصل نہ تھی، اسے افواہ کہتے ہیں ، شرع تو اتر و شہرت کو قبول فرماتی ہے وہ اور چیز ہے۔
مسئلہ نمبر32
مجرد حکایت محض نا مسموع گواہوں کا مجرد (صرف) بیان کہ فلاں شہر میں چاند ہوا، یا فلاں فلاں نے چاند دیکھا، یا فلاں روز سے روزہ رکھا۔ مجرد نکایت ہے جس پر اصلا التفات نہیں، بلکہ یا تو اپنے معائنہ کی شہادت ہو، یا شہادت پر شہادت ، یا شرعی شہرت ۔
یہ مسئلہ بہت ضروری الحفظ ہے۔ یہ صرف عوام بلکہ آج کل کے بہت مدعیان علم، بلکہ بعض ذی علم بھی نا واقف پائے۔
مسئلہ نمبر:33
یقین عرفی کچھ بکار آمد نہیں۔
یہ ایک نفیس مسئلہ ہے جس پر فقیر غفر الله تعالی لہ نے تنبیہ کی یقین دو طرح کا ہوتا ہے: ایک شرعی کہ طریقہ شرع سے حاصل ہو۔
دوسرا عرفی کہ با وجود عدم طریقہ شرعی صرف اپنے مقبولات و مسلمات یا تجربیات، مشہورات اور قرائن خارجیہ کے لحاظ سے اطمینان حاصل ہو جائے ۔ نا واقف لوگ مدرک عرفی و شرعی مظہر نے شہادت میں عدد شرط کیا دو مردیا ایک مرد دو عورتیں ہوں وہاں ہمارے اعظم کسی معتمد اجل مستند نے جسے افضل اولیاء عالم جائیں، اور وہ واقع میں بھی غوث زمانہ ہی ہو۔ شہادت دی کہ میرے سامنے ایسا ہوا اور میں نے بچشم خود دیکھا، ہمیں جو اعتبار اس کے فرمانے پر آئے گا، ہرگز دو چار دس ہیں کی بات پر بھی اس سے زیادہ نہ ہو گا مگر شرع دوسرا گواہ اور مانگے گی، اور معاملہ زنا میں تین ۔
تو اگر ایسے ہی تین گواہی دیں جب بھی نا مسموع کہ قرآن کریم نے ﴿ بِارْبَعَةِ شُهَدَاءَ فرمایا، اگر چہ اس میں شک نہیں کہ سامع مطلع کو ان کے ارشاد میں اصلا محل شک نہ ہو گا۔ اسی طرح ہزاروں نظیر میں اس مسئلہ کی ہوں گی اور پھر قرائن بے چارے کسی گنتی شمار میں ہیں۔ ذی علم کو بار ہا واقع ہوتا ہے کہ بہت امور خارجہ کے لحاظ سے چاند ہونے میں اطمینان کامل رکھتا ہے، مگر جب تک ثبوت شرعی نہ ہو ہر گز حکم رویت نہیں کرتا۔ یوں ہی نہ جب ثبوت میزان شرعی پر ٹھیک اُترے گا مجبور احکم رؤیت کرے گا، اگر چه بنظر امور دیگر کسی طرح ہلال کا ہونا دل پر نہ تھے۔ ایسی ہی جگہ عالم و جاہل کا فرق کھلتا ہے ، جب قرائن اس کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں، جہاں حکیم عالم پر اعتراض کرنے لگتے ہیں، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جو میں نے کیا وہی رائے صائب تھی اور مجھ پر بہر حال مدرک شرعی کی پابندی واجب

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 449 تا 478

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 615
مزید پڑھیں:دو علاقوں میں کتنا فاصلہ ہو کہ ایک جگہ کی رویت ہلال سے دوسری جگہ رؤیت ثابت ہو جاتی ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top