بیوہ کا محرم کے بغیر حج کرنا کیسا؟
:سوال
میری بھاوج بیوہ فی الحال ارادہ حج کو جانے کا رکھتی ہیں مگر ہمراہ ان کے کوئی شخص محرم نہیں ہے، جو شخص کہ ان کے ہمراہ جاتا ہے وہ ان کے دور کے رشتہ کا بھائی ہے اور عرصہ سے بھاوج صاحبہ کے پاس ملازم ہے مگر مشخص مذکور محتاط نہیں ہے۔ کیا اس کے ساتھ جا سکتی ہیں؟
:جواب
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں (( لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تسافر مسيرة يوم وليلة الامع زى رحم محرم يقوم عليها )) ترجمہ : حلال نہیں اس عورت کو کہ ایمان رکھتی ہو اللہ اور قیامت پر کہ منزل کا بھی سفر کرے مگر محرم کے ساتھ جو اس کی حفاظت کرے۔
(صحیح بخاری ، ج 1 جس 147 قدیمی کتب خانہ کراچی)
یعنی بچہ یا مجنون یا مجوسی یا بے غیرت فاسق نہ ہوا یسا اگر محرم ہو تو اس کے ساتھ بھی سفر حرام ہے کہ اس سے حفاظت نہ ہو سکے گی یا نا حفاظی کا اندیشہ ہوگا ، حج کا جانا ثواب کے لیے ہے اور بے محرم جانے میں ثواب کے بدلے ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔میں خاص اس موقع کے لیے نہیں کہتا بلکہ عام مسئلہ بتاتا ہوں کہ جو عورت حج کو جانا چا ہے اور محرم نہ پائے اور شوہر نہ رکھتی ہو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کفو سے نکاح کر کے اسے ساتھ لے جائے پھر اگر نکاح کو باقی رکھنا نہ چاہے اور اندیشہ ہو کہ دوسرے کی پابند ہو جائیگی تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ (فلاں) کفو کے ساتھ نکاح کرنے کا اس شرط پر کہ جب میں سفر حج سے اپنے مکان پر واپس آؤں مکان میں قدم رکھتے ہی فورا مجھ پر ایک طلاق بائن ہو،
مزید پڑھیں:والدین کی اجازت کے بغیر حرمین میں ہجرت کرنا کیسا؟
پھر وکیل کرے یہ وکیل یونہی نکاح کرے یعنی ان سے کہے میں نے فلانہ بنت فلاں بن فلان اپنی موکلہ کو اتنے مہر کے عوض اس شرط پر تیرے نکاح میں دیا کہ جب وہ عورت بعد حج اپنے گھر واپس آئے مکان میں داخل ہو فورا اس پر ایک طلاق بائن ہو ، شوہر کہے میں نے اسے اس شرط پر قبول کیا ، اب بعد واپسی گھر میں آتے ہی فورا اس کے نکاح سے نکل جائے گی جسے وہ کسی طرح نہیں روک سکتا، اور جسے مکہ معظمہ سے واپسی پر محرم ملنے کا یقین ہو یوں شرط کرے کہ مکہ معظمہ پہنچتے ہی مجھ پر طلاق بائن ہو مکہ معظمہ پہنچتے ہی طلاق بائن واقع ہو جائے گی ،
مگر اگر بیچ میں خلوت واقع ہوئی تو تا انقضائے ایام عدت وہاں ( مکہ معظمہ ) قیام لازم ہوگا اور خلوت نہ ہو تو یہ وقت بھی نہ ہوگی اور ہر حال میں جو عورت ولی رکھتی ہو اس کے لیے یہ ضرور ہو گا کہ نکاح مذکور ایسے شخص سے کرے جو قوم یا مذہب یا پیشے یا چال چلن میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح اس کے ولی کے لیے باعث ننگ و عار ہو، یا اگر ایسا شخص ہے تو ولی اس کے اس حال پر مطلع ہو کر پیش از نکاح صریح اجازت دے دے ورنہ نکاح نہ ہو گا۔
مزید پڑھیں:عورت ضعیفہ یا عفیفہ کا محرم کے بغیر حج کرنا کیسا؟
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 666

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top