بغیر چاند دیکھے کسی کی پیشن گوئی پر روزہ رکھنا کیسا؟
سوال
ہمارے یہاں کلکتہ میں 29 شعبان روز جمعرات شام کو مطلع بالکل صاف تھا سب لوگوں نے چاند پر غور کیا رؤیت نہ ہوئی مگر ایک پیر صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ جمعہ کو یکم رمضان ہو گی اُن کے معتقدین نے بلا رؤیت جمعہ سے روزہ رکھ لیا اب ایک صاحب کہ شاید بغداد شریف کے ہیں یہاں آئے ، اُن پیر صاحب نے انہیں پیش کیا اپنی پیشگوئی کی تصدیق کے لیے انہوں نے اپنی رؤیت نہر سویز میں شام جمعرات کی بیان کی، پھر اُسی جلسہ میں دوسرا شخص کھڑا ہوا کہ میں نے اور بہت آدمیوں نے امرتسر میں جمعرات کی شام کو دیکھا، یونہی تیسرے شخص نے کہ وہ بھی کہیں سے آیا ہے اُس جلسہ سے جدا اپنی رؤیت بیان کی مگر یہ سب لوگ اُن پیر صاحب کے موافقین ہیں اس صورت میں رمضان شریف کی پہلی بروز جمعہ قرار پائیگی؟
جواب
صورت مستفسرہ میں وہ پیشگوئی اور بلا رؤیت اس پر عمل کرنے والے سب گنہ گار ہوئے اگر چہ اب کیسے ہی قطعی ثبوت سے یکم جمعہ کی ثابت ہو جائے کہ جس وقت انہوں نے حکم دیا اور عمل کیا تھا اُس وقت ثبوت شرعی نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
(صوموا لرؤيته وافطر والرؤيته)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھوا اور چاند دیکھ کر ہی عید کرو۔
دوسری حدیث میں ہے
( لا تقدموا الشهر حتى تروا الهلال وتكملوا العدة)
ترجمہ: چاند دیکھنے سے پہلے مہینے کو شروع نہ کرو بلکہ گنتی پوری کرو، اہلحدیث ، اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
جب صوم شک کے لیے ہے
( قد عصى أبا القاسم محمد اصلى الله تعالیٰ علیہ وسلم )
اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
تو با وصف صفائی مطلع رؤیت نہ ہونے پر رمضان بنا لینا کیسی سخت بیبا کی و نافرمانی تھی۔
رہا ان گواہیوں کا حال مذہب مشہور و مختار متون و مصحح کبا ر ائمہ پر تو یہ شہادت محض مہمل ونا مسموع ہیں کہ بحالت صفائی مطلع دو چار کی شہادت سے کچھ نہیں ہوتا جمع عظیم چاہئے ، اور جبکہ مسلمین نے تلاش ہلال میں تقصیر و تکاسل کو راہ نہ دی جیسا کہ بحمد اللہ تعالی اب یہاں مشاہد ہے، تو ایسی جگہ اس روایت پر عمل کی بھی ضرورت متحقق نہیں کہ دو کافی ہیں۔
مگر راجح یہ ہے کہ جب شاہد (گواہ) میں کوئی خصوصیت خاصہ ایسی ہوجس سے اُس کا دیکھنا اور اوروں کو نظر نہ آنا مستبعد نہ رہے، مثلاً عام لوگ شہر میں تھے اس نے جنگل میں دیکھا یادہ زمین پر تھے اس نے بلندی پر دیکھا تو در بارہ ہلال رمضان المبارک ایسے ایک کی بھی گواہی مقبول ہو گی
جبکہ وہ شرعاً قابل قبول شہادت ہو۔ صورت مستفسرہ میں شاہد بغدادی میں خصوصیت مذکورہ تو بیشک ہے کہ اگر یہ بیان صحیح ہے تو ایک تو آبادی سے دور، دوسرے دریا کہ اس کی ہوا گر دو غبا رود خان ( دھواں) سے صاف تر ہوتی ہے، پھر کلکتہ کا طول بلد نہر سویز سے اتناز ائد کہ کلکتہ میں پہر بھر رات سے زائد گز ر لیتی ہے
تو وہاں شام ہوتی ہے، اس مدت میں چاند آفتاب سے اور زیادہ ہٹ آئے گا اور رویت آسان تر ہو گی۔ بلکہ یہ وجہ گواہ امرتسری میں ہے کہ اقل درجہ بہتر 72 میل کے تفاوت طول پر ایسا فرق ممکن ہے۔
بس یہ دیکھتار ہا گواہ خود بھی مقبول الشہادۃ میں یا نہیں، اگر خصوصیت مذکورہ کے ساتھ ایک گواہ بھی مستور الحال تک ہے یعنی اس کے وضع لباس حرف معیشت کلام وغیرہ سے اُس کا مرتکب کبیرہ یا مصر صغیرہ یا خفیف الحرکات ہونا ظاہر نہیں ، نہ کسی دوسرے طریقہ سے اس میں یہ امور معلوم تو از نجا کہ ہلال رمضان مبارک میں مستور کی گواہی بھی مقبول ہے۔
اُس کی شہادت مان کر روزہ جمعہ کی قضاء کی جائے گی مگر جبکہ گواہ کی حالت اور پیر مسطور سے اُس کی شدت عقیدت پر نظر کرنے سے وہ اس کی بات سچی بنانے پر متہم ٹھہرتا ہو جیسا کہ آجکل بہت لا ابالی لوگوں کا اپنے ساختہ مشائخ کے ساتھ حال ہے تو البتہ اس کی گواہی نہ سنی جائے گی کہ تہمت بھی اسباب رد شہادت سے ہے۔
یو نہی اگر سب گواہ ظاہر الفسق و ہ لوگ کہ جماعت کے پابند نہیں یانا جائز تماشاد یکھا کرتے یا حرام نوکری یا پیشہ رکھتے یا داڑھی حد شرع سے کم رکھواتے یاریشمیں کپڑے یا سونے چاندی کے نا جائز لباس یازیور پہنا کرتے یا ضروریات دین سے غافل ، بے علم جاہل ہیں کہ نماز ، روزہ ، وضو غسل کے فرائض وشرائط و مفسدات سے آگاہ نہیں یا تجارت کرتے ہیں اور بیع و شراء کے ضروری احکام نہ سیکھے علی ھذا القیاس جن مسائل کی ضرورت پڑے ان کی تعلیم سے باز رہنے والے کہ یہ سب فساق مردود الشہادۃ ہیں تو ایسوں کی گواہی تو شرع مطہر میں اصلا معتبر نہیں۔
مزید پڑھیں:لگاتار تین ماہ ابر ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی مرضی سے عید مقرر کر سکتے یا نہیں؟
READ MORE  کیا قبرستان آنے اور ذکر وغیرہ سے مردے کا جی بہلتا ہے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top