:سوال
یہاں اکثر لوگ بے پڑھے نماز ظہر و عصر و مغرب و عشا کے فرض تنہا پڑھنے کی حالت میں تکبیرات انتقالیہ باآواز بلند اس غرض سے کہتے ہیں کہ دوسرے نمازی معلوم کر لیں کہ یہ شخص فرض پڑھتا ہے اور شریک ہو جائیں اس صورت میں جہر کے ساتھ تکبیر کہنے سے نماز میں فساد ہوتا ہے یا نہیں؟ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے دوسرا شخص آیا اور اس بات کا منتظر ہے کہ یہ نمازی بجہر ( بلند آواز سے) تکبیر کہے تو میں شریک ہو جاؤں، چنانچہ اس نے اس کی اطلاع کی غرض سے تکبیر جہر کے ساتھہ کہی ، اس صورت نماز فاسد ہو گی یا صحیح ؟
: جواب
دونوں صورتوں میں اگر نمازیوں نے اصل تکبیرات انتقال بہ نیت ادائے سنت و ذکر الہی عزوجل ہی کہیں اور صرف جہر بہ نیت اطلاع کیا تو نماز میں کچھ فساد نہ آیا۔ اور شک نہیں کہ واقع ایسا ہی ہوتا ہے نہ یہ کہ نفس تکبیر ہی سے ذکر وغیرہ کچھ مقصود نہ ہو صرف بغرض اطلاع به نیت مذکوره کہی جاتی ہو ، ہاں اگر کوئی جاہل اجہل ایسا قصد کرے تو اس کی نماز ضرور فاسد ہو جائے گی اقول و وبالله التوفيق ( میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتا ہوں ) تحقیق مقام یہ ہے کہ ان مسائل میں حضرات طرفین (امام اعظم اور امام محمد رضی اللہ تعالی عنہما )کے نزدیک اصل یہ ہے کہ نمازی جس لفظ سے کسی ایسے معنی کا افادہ کرے جو اعمال نماز سے نہیں وہ کلام ہو جاتا اور مفسد نماز قرار پاتا ہے ۔ اگرچہ لفظ فی نفسہ ذکر الہی یا قرآن ہی ہو اگر چہ اپنے محل ہی میں ہو، مثلاً کسی موسی نامی شخص سےنمازی نے کہا” ما تلک بیمینک یا موسی” (اے موسی تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ )نماز جاتی رہی ، اگر چہ یہ الحاظ آیہ کریمہ ہیں۔
یا رالتحیات پڑھ رہا تھا جب کلمہ تشہد کے قریب پہنچا مؤذن نے اذان میں شہادتیں کہیں اس نے نہ بہ نیت قرآت تشہد بلکہ بہ نیت اجابت مو زن اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمداً عبده ورسولہ کہا نماز جاتی رہی ، اگر چہ یہ اگر چہ یہ ذکر اپنے محل ہی میں تھا۔مگر جب کہ ایسا قصد بضرورت اصلاح نماز ہو جیسے مقتدیوں کا امام کو بتانا یا اس کے جواز میں خاص نص آگیا ہو جیسے کوئی دروازے پر آواز دے یہ نماز پڑھتا ہو اس کو مطلع کرنے کے لئے سبحان الله یا لا اله الا الله یا اللہ اکبر کہے تو صرف ان صورتوں میں نماز نہ جائے گی اور ان کے ماوراء میں مطلقاً اسی اصل کلی پر عمل ہو کر فساد نماز کا حکم دیا جائے گا۔ اور شک نہیں کہ جب نمازی نے الله اكبر يا سمع اللہ لمن حمدہ صرف اس اطلاع کی نیت سے کہا کہ میں پڑھ رہا ہوں میرے شریک ہو جاؤ، تو یہ ایک لفظ ہے جس سے ایسے معنی کا افادہ ( فائدہ پہنچانا )چاہا جو اعمال نماز سے نہیں کہ اعمال نماز اس کے افعال مخصوصہ معلومہ ہیں نہ کسی سے یہ کہنا کہ نماز میں مل جاؤ اور اس خصوص میں نہ نص وارد ہے
مزید پڑھیں:آستین اوپر کو چڑھا کر نماز پڑھنے میں کس قدر نقصان ہے؟
نہ یہ کسی نہ جاننے والے کو اس کا بتانا ہے کہ میں نماز میں مشغول بلکہ اس سے اپنے فرض میں ہونے کا اعلام ( دوسرے کو بتانا ) اور اپنی نماز کی طرف بلانا مقصود ہے، یہ دونوں باتیں مجرد (صرف) قصد اعلام صلوۃ (نماز میں ہونے کو بتانے کے قصد ) سے زائد ہیں کہ اس قدر تو وہ آنے والے خود ہی جانتے ہیں کہ یہ نماز پڑھ رہا ہے تو یہ صورت اُن صور استثناء میں داخل نہیں اور حکم فساد نماز ہے۔ مگر اگر اصل لفظ سے کوئی امر بیرونی مقصود نہیں بلکہ صرف رفع صوت بقصد دیگر ہے تو یہاں کوئی لفظ ایسا نہ پایا گیا جس سے کسی خارج بات کا قصد کیا گیا ہو اور تنہارفع صوت کلام نہیں تو منار افساد متحقق نہ ہوا۔ ولہذا امام محقق على الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام قدس سرہ نے جبکہ ان مکبروں کی نسبت جو تکبیرات انتقالات میں گانے کے طور پر اپنی آواز بنانے کے لئے گھٹاتے بڑھاتے اور سامعین کو اپنی خوش الحانی جتانے کا قصد کرتے ہیں فساد نماز کا حکم دیا اسنے دو امر پر مبنی فرمایا
ایک یہ کہ ان تکبیرات سے ان کا قصدا قامت عبادت نہیں ہوتا بلکہ اپنی صناعت موسیقی کا اظہار مقصود ہوتا ہے تو اب یہ تکبیریں خود ہی وہ الفاظ ہیں جن سے معنی خارج کا افادہ مراد ہوا۔
دوسرے یہ کہ اس جز رومدسے حروف زائد پیدا ہو جاتے ہیں جو اصل کلمات تکبیر میں نہیں تو اگر چہ نفس تکبیر سے اُن کا قصد وہ نہ ہو مگر یہ حروف تو ضرور اسی قصد سے بڑھائے گئے اور اب یہ وہ الفاظ بقصد افادہ معنی خارج ہوئے بہر صورت فساد نماز چاہئے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 270