اگر مال کم ہو گیا تو زکوۃ میں کس قدر کمی کی جائے گی؟
:سوال
اگر آئندہ زیور کم ہو جائے تو کس حساب سے کمی کی جائے؟
:جواب
زکوۃ صرف نصاب میں واجب ہوتی ہے، نہ( کہ ) عفو میں، مثلا ایک شخص آٹھ تولے سونے کا مالک ہے تو سواد و ماشے سونا کہ اس پر واجب ہوا ، وہ صرف ساڑھے سات تولے کے مقابل ہے نہ کہ پورے آٹھ تو لے کے، کہ یہ چھ ماشے جو نصاب سے زائد ہے عفو ہے۔ یوں ہی اگر دس تولے کا مالک ہو تو زکوۃ صرف نو تولہ یعنی ایک نصاب کامل اور ایک نصاب خمس کے مقابل ہے، دسواں تو لہ معاف۔
پس اگر نقصان مقدار عفو سے تجاوز نہ کرے یعنی اسی قدر مال کم ہو جائے جتنا عفو تھا، مثلاً مثال اول میں ۶ ماشہ اور دوم میں ایک تولہ، جب تو اصلاً قابل لحاظ نہیں کہ اس قدر پر تو پہلے بھی زکوۃ نہ تھی کل واجب بمقابلہ مال باقی تھاوہ اب بھی باقی ہے تو زکوة اسی قدر واجب ہے اور کمی نظر سے ساقط ۔
اور اگر مقدار عفو سے متجاوز ہو یعنی اُس کے باعث کسی نصاب میں نقصان آئے خواہ یوں کہ مال میں جس قدر عفو تھا نقصان اس سے زائد کا ہوا۔ جیسے امثلہ مذکورہ میں دو ۲ تو لے پایوں کہ ابتداء مال صرف مقادیر نصاب پر تھا عفو سرے سے تھا ہی نہیں۔۔ ایسا نقصان دو حال سے خالی نہیں یا حولان حول سے پہلے ہے یا بعد ۔
مزید پڑھیں:بیوی میکے سے زیور لائی اس کی زکوۃ عورت پر ہے یا مرد پر؟
بر تقدیر اول دو حال سے خالی نہیں : یا سال تمام پر رقم نصا بہائے پیشیں ( پہلے نصاب پر ) پھر پوری ہوگی یا نہیں، اگر پوری ہوگئی تو یہ نقصان بھی اصلا نہ ٹھہرے گا اور اس مجموع رقم پر حولان حول سمجھا جائے گا۔۔۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اصل مال سے کوئی پارہ محفوظ رہے سب بالکل فنانہ ہو جائے ورنہ ملک اوّل سے شمار سال جاتا رہے گا اور جس دن ملک جدید ہو گی اُس دن سے حساب کیا جائے گا، مثلاً یکم محرم کو مالک نصاب ہواصفر میں سب مال سفر کر ( چلا) گیا، ربیع الاول میں پھر بہار آئی تو اسی مہینہ سے حول گنیں گے حساب محرم جاتا رہا۔
بر تقدیر ثانی یعنی جبکہ مال پر سال گزر گیا اور زکوة واجب الاداء ہو چکی ، اور ہنوز (ابھی تک ) نہ دی تھی کہ مالکم ہو گیا ، یہ تین حال سے خالی نہیں کہ سبب کمی استہلاک ہو گا یا تصدق یا ہلاک۔ استهلاک کے یہ معنی کہ اس نے اپنے فعل سے اُس رقم سے کچھ اتلاف کیا، صرف کر ڈالا ، پھینک دیا کسی غنی کو ہبہ کر دیا۔
اور یہاں تصدق سے یہ مراد کہ بلا نیت زکوۃ کسی فقیر محتاج کو دے دیا۔
اور ہلاک کے یہ معنی کہ بغیر اس کے فعل کے ضائع و تلف ہو گیا ، مثلا چوری ہو گئی یا ز روز یور کسی کو قرض و رعایت دے دیا وہ کر گیا اور گواہ نہیں یا مرگیا اور تر کہ نہیں یا مال کسی فقیر پر دین تھا مدیون محتاج کو ابرا ( معاف) کر دیا کہ یہ بھی حکم ہلاک میں ہے۔
مزید پڑھیں:اگر مال کم ہو گیا تو زکوۃ میں کس قدر کمی کی جائے گی؟
اب صورت اولی یعنی استهلاک میں جس قدرز کوۃ سال تمام پر واجب ہوئی تھی اُس میں سے ایک حبہ ( دانہ ) نہ کھٹے گا یہاں تک کہ اگر سارا مال صرف کر دے اور بالکل نادار محض ہو جائے تا ہم قرض زکوۃ بدستور ہے۔
اور صورت ثانیہ یعنی تصدق میں اگر نذریا کفارے یا کسی اور صدقہ واجبہ کی نیت کی تو بالا تفاق اس کا حکم بھی مثل استهلاک ہے یعنی زکوۃ سے کچھ ساقط نہ ہوگا جو اور باقی رہا سب کی زکوۃ سے کچھ ساقط نہ ہوگا جو دیا اور باقی رہا سب کی زکوۃ لازم آئیگی۔
اور اگر تطوع یا مطلق تصدق کی نیت تھی اور سب تصدق کر دے تو بالا تفاق زکوۃ ساقط ہوگئی۔
اور اگر بعض تصدق کیے تو امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس قدر صدقہ کیا اُس کی زکوۃ ساقط اور باقی کی لازم، مثلاً دو سو ۲۰۰ در ہم پر حولان حول ہو گیا اور زکوۃ کے پانچ درہم واجب ہو لئے ، اب اس نے سو درم لِلہ دے دے تو ان سو کی زکوۃ یعنی ڈھائی درم ساقط ہوگئی صرف ڈھائی دین رہے۔ مگر امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بعض کا تصدق مطلقا مثل استہلاک ہے کہ کسی نیت سے ہو اصلا ز کوۃ سے کچھ نہ گھٹے گا، تو صورت مذکورہ میں اگر چہ سور و پیہ خیرات کر دے زکوۃ کے پانچ درم بدستور واجب رہے، یہ مذہب زیادہ قوی و مقبول و شایان قبول ہے۔
رہی صورت ثالثه یعنی ہلاک، اس میں بالاتفاق کم یا بہت جس قدر تلف ہو بحساب اربعہ متناسبہ اتنے کی زکوۃ ساقط ہوگی اور جتنا باقی رہے اگر چہ نصاب سے بھی کم ، اتنے کی زکوۃ باقی ۔
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 791 to 794

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top