:سوال
اگر کسی فقیر کے ذمہ روپیہ کا قرض باقی ہو اور وہ فدیہ پانے کا مستحق ہوتو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ فدیہ کی ادائیگی میں اسے معاف کر دیں؟
:جواب
یہاں صورتیں متعدد ہیں، فدیہ والا اپنی حیات میں فدیہ ادا کرتا ہے جیسے شیخ خانی روزے کا یا اُس کے بعد وارث بلا وصیت بطور خود دیتا ہے یا بحکم وصیت ادا کیا جاتا ہے اور در صورت وصیت مدیون پر یہ دین بعد موت مورث ، حادث ہوا ہے جیسے کسی نے یہ ، ترکہ سے کوئی چیز غصب کر کے صرف کر ڈالی کہ اس کے تاوان کا اس پر دین آیا یا دین حیات مورث کا ہے تو یہ چار صورتیں ہیں۔
صورت اخیر میں عدم صحت کا حکم در مختار وغیرہ میں مصرح ہے یعنی زید پر نماز روزے وغیرہما کا فدیہ تھا اس نے وصیت کی کہ میرے مال سے ادا کرنا عمر و فقیر حیات زید سے زید کا مدیون تھا ، وصی نے وہ دین فدیہ میں عمرو کو چھوڑ دیا فدیہ ادانہ ہوا۔ باقی صور کا حکم قابل تفتیش و مراجعت ہے ۔۔۔ جو مال کسی پر دین ہو جب تک وصول نہ ہو مال کامل نہیں ناقص ہے خصوصا جبکہ کسی مفلس پر ہو وہ تو گویا مردہ مال ہے
لہذا حاصل ملک مال کہ تمول وغنا نہیں ہوتا زید کے لاکھ روپے پر قرض آتے ہوں جب تک پاس نصاب نہ ہو فقیر ہے خودز کوۃ لے سکتا ہے۔بلکہ عرفا دین کو مال ہی نہیں کہتے اگر لاکھوں قرض میں پھیلے ہوں اور پاس کچھ نہیں تو قسم کھا سکتا ہے کہ میرا کچھ مال نہی ۔ ولہذا کسی عین یعنی نصاب موجود کی زکوۃ ، دین بہ نیت زکوۃ معاف کر دینے سے ادا نہیں ہو سکتی کہ نصاب موجود مال کامل ہے تو مال ناقص اس کی زکوۃ نہیں ہو سکتا
بلکہ جو دین آئندہ ملنے کا ہے اس کی زکوۃ بھی معافی دین سے ادانہ ہو گی کہ دین باقی ، دین ساقط سے بہتر ہے، دین ساقط اب کبھی مال نہیں ہوسکتا اور دین باقی میں احتمال ہے شاید وصول ہو کر مال ہو جائے ، ہاں جو نصاب کسی فقیر پر دین تھی وہ کل یا بعض اسے معاف کر دے تو قدر معاف شدہ کی زکوٰۃ ساقط ہوگئی کہ ناقص ناقص سے ادا ہو سکتا ہے۔ یہ تقریر میر بتوفیق القدیر اقتضاء کرتی ہے کہ دین معاف کرنے سے فدیہ مطلق ادانہ ہو جب تک وصول کر کے فدیہ میں نہ دی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 531 تا 536