:سوال
ایک شخص جس کے ایسے والدین اور دو بیٹیاں ہیں جو معاشی اعتبار سے اس شخص کی محتاج نہیں، وہ چاہتا ہے کہ وہ تنہا حرمین شریفین ( اللہ تعالیٰ ان کے شرف و عظمت میں اور اضافہ فرمائے ) ہجرت کر جائے اور وہ گمان رکھتا ہے کہ اگر ان اپنے والدین سے ہجرت کی اجازت چاہئے گا تو وہ اجازت نہیں دیں گے ، صورت مسئولہ میں اس کے لیے کیا حکم ہے
:جواب
والدین کے ساتھ حسن سلوک اعظم واجبات اور اہم عبادات میں سے ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ و تعالی نے ان کی شکرگزاری کو اپنے شکریہ کے ساتھ متصل فرماتے ہوئے یہ حکم دیا (اشکر لی ولوالدیک) میرے شکر گزار بنو اور والدین کے۔ اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے والدین کے ساتھ نیکی کو اللہ تعالی کی راہ میں جہاد سے افضل قرار دیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں
( سألت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم اى العمل احب الى الله قال الصلوة على وقتها قلت ثم اي، قال بر الوالدين، قلت ثم اى قال الجهاد في سبيل الله)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کے ہاں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا : وقت پر نماز ، میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون ساعمل ہے؟ فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک عرض کیا: اس کے بعد؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد۔
صحیح بخاری ، ج 2، ص 882 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی
امام اہلسنت رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں نیکی ان کے ساتھ یہ نہیں کہ ان کے حکم صریح کی تو نا فرمانی نہ کی جائی اور اس کے علاوہ میں ان کی مخالفت کی جائے ، ہاں نیکی یہ ہے کہ کسی معاملہ میں بھی انہیں پریشان نہ کیا جائے اگر چہ وہ اولاد کو کسی معاملہ کا حکم نہ دیں، کیونکہ طاعت اور راضی کرنا دونوں واجب ہیں اور نافرمانی اور ناراض کرنا دونوں حرام ہیں اور یہ ناراض اور راضی کرنا ان کے صریح حکم کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ، جیسا کہ مخفی نہیں ۔ اس پر دلیل یہ روایت ہی کافی ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت، کہ رحمتہ العلمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا (
( رضى الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد)
مزید پڑھیں:پہلے حج کرے یا مدینہ منورہ میں روضہ انور پر حاضری؟
رب کی رضا والد کی رضا میں ہیں اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔
کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس رہنے کی اجازت چاہی آپ نے انھیں والدین کی خدمت کا حکم دیا، ان احادیث میں یہ کہیں تصریح نہیں کہ والدین ان کی خدمت کے محتاج تھے۔
(جاء رجل النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فاستأذنه في الجهاد فقال احى والدانكہ، قال نعم ، قال ففيهما فجاهد)
ترجمہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر جہاد پر جانے کی اجازت چاہی، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ عرض کی : ہاں۔ فرمایا: جاؤ ان کی خدمت میں محنت کرو۔
صحیح مسلم، ج 2 ص 313، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
ابو داؤد میں ہے
(جاء رجل الى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم فقال جئت ابايعك على الهجرة و ترك ابوى يبكيان قال فارجع اليهما فأضحكهما كما ابكيتهما )
ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ کے پاس ہجرت پر بیعت کے لیے آیا ہوں اس حال میں کہ میں والدین کو روتے ہوئے چھوڑ آیا ہوں، فرمایا: ان کی خدمت میں واپس جاؤ اور اس طرح خوش کرو جیسے تم نے انھیں رلایا ہے۔
(سنن ابوداؤ ر ج 1 ص 342، آفتاب عالم پریس، لاہور )
مزید پڑھیں:رمضان میں عمرہ کا ثواب زیادہ ہے یا ایام حج میں
اس میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
( ان رجلاها جر من اليمن الى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم فقال هل لك احد باليمن، فقال ابواى قال اذنالك قال لا، قال فأرجع اليهما فأستأذنهما فان اذنا لك فجاهد والافبرهما
ترجمہ: ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آیا، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پوچھا: یمن میں تیرا کوئی عزیز ہے؟ عرض کیا: میرے والدین ہیں، فرمایا: انھوں نے تجھے اس بات کی اجازت دی ہے؟ عرض کیا نہیں، فرمایا: ان کی خدمت میں جا کر اجازت طلب کرو اگر تجھے اجازت دے دیں تو جہاد پر جاؤ اور اگر اجازت نہ دیں تو والدین کی خدمت کرو۔
سنن ابوداؤ د ر ج 1 میں 342 ، آفتاب عالم پریس، لاہور )
ذرا غور کیجئے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو اپنے آباء اور امہات کی خدمت میں لوٹنے کا کس انداز میں حکم دیا ہے، یہ ملاحظہ بھی کیجئے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس شخص کو کیاحکم دیا جو والدین سے اجازت لیے بغیر آیا تھا کہ واپس جاؤ اور اجازت لو، اس پر یہ بھی توجہ کیجئے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس شخص کی کتنی پیاری رہنمائی فرمائی جواپنے والدین کو روتا ہو ان چھوڑ کر آیا تھا کہ جاؤ ان کو اسی طرح ہنساؤ جس طرح انھیں رلایا ہے، جب آپ نے یہ سب کچھ پڑھ لیا تو اب صورت مذکورہ میں اگر والدین سے اجازت مانگے وہ اجازت نہیں دے رہے تو واضح بات ہے کہ وہ تمھاری جدائی پر سخت پریشان و غمگین ہوں گے جبھی تو وہ آپ کو اجازت نہیں دے رہے، تو اب روتے ہوئے چھوڑ کر جانا ہرگز جائز نہیں۔
مزید پڑھیں:دم شکریہ اور دم تقصیر غیر حرم میں کرنا کیسا؟
یہ تو احادیث تھیں، باقی رہے فقہاء تو علامہ البحر نے بحرالرائق میں تفصیلا رخصت کی تفصیل تحریر کی ، اور اجازت والد کے بغیر اولا د کو حج کرنے سے منع کیا پھر فرمایا
هذا كله في حج الفرض اما حج النفل فطاعة الوالدين اولى مطلقا كما صرح به في الملتقط
ترجمہ: یہ تمام بحث حج فرض میں ہے، رہا نفل حج تو اس میں اطاعت والدین ہر حال میں اولی ہے جیسا کہ ملتقظ میں ہے۔
بحر الرائق ، ج 2 ص 309، ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)
میں کہتا ہوں یہ انھوں نے حج کے بارے میں حکم دیا ہے جس میں توواپسی کا ارادہ رکھتا ہے یہ کیسے جائز ہوسکتاہے جبکہ واپس نہ ہو نے کا عزم رکھتا ہے، ۔ فتاوی ہندیہ میں ایسے مسائل کے بارے میں بہت عمدہ ضابطہ بیان کیا ہے، وہ یہ ہے
لابن البالغ يعمل عملا لاضرر فيه ديناً ولادنيا بوالديه وهما يكرها نه فلا بد من الاستيذان فيه اذا كان له عند بد
ترجمہ: بالغ اولاد کوئی دینی یاد ینوی ایسا کام نہ کرے جو والدین کے لیے غیر مضر اور نا پسند ہو، اور اگر ضروری ہو تو والدین سے اجازت لینا ضروری ہوگا۔
یعنی اگر چہ نقصان دہ نہ بھی ہو تب بھی والدین کی اجازت کے بغیر چارہ نہیں۔
یہ تو مسئلہ کا حکم تھا لیکن مجھے اس میں کلام نہیں ہے اور جبکہ میں یہ کہتا ہوں کہ مجاورت اس صورت میں بھی جائز نہیں جبکہ والدین اجازت دیں تو اس وقت کیسے جائز ہو گی جب وہ اسے پسند نہ کریں اور اس پر پریشان ہوں، اور یہی امام صاحب کا قول ہے محتاط اور خائف اہل علم نے آپ کے اس قول کو اختیار کیا ہے جیسا کہ شامی میں احیاء سے ہے۔ مجمع وغیرہ میں اس پر جزم کا اظہار کیا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 678 تا 687