:سوال
یہ جو فتاوی ابوالبرکات میں لکھا ہے کہ لا تجوز الجمعة – حتى يعلم الخطيب معناه ” ترجمہ: جب خطیب، خطبہ کے معانی سے آگاہ نہ ہو جمعہ جائز نہیں۔ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
:جواب
خطیب کا معنی عبارت خطبہ سمجھنا شرط کیا معنی، ہرگز واجب بھی نہیں کہ آثم ( گناہ گار ) کہہ سکیں، جمعہ نا جائز ہونا تو در کنار اگر یہ قول صحیح ہوتا واجب تھا کہ کتب مشہورہ متداولہ اس کی تصریحوں سے مالا مال ہوتیں ایسا نہایت ضروری مسئلہ جس پر نماز فرض کے صحت و بطلان کامدار ہو اور متون و شروح و فتاوی کہیں اس کا پتانہ دیں ہرگز عقل سلیم اسے قبول نہیں کر سکتی۔ ولہذ امجتبی میں جو بہت سی شرائط نیت نماز فرض و نفل میں ذکر کیں جن کا تصانیف معتمدہ میں وجود نہ تھا علماء نے اسی وجہ سے ان کی طرف اصلاً التفات نہ فرمایا۔ نہ اور مجتبی اگر چہ مثل سائر تصانیف زاہدی کتب معتمدہ سے نہیں تاہم مشہور مصنف کی مشہور تصنیف ہے جس سے علماء مابعد نے صدہا مسائل نقل فرمائے مگر ایسے ہی نو ادر غرائب کے باعث پایہ اعتماد سے ساقط ہوئی۔
مزید پڑھیں:نماز جمعہ میں آذان کے بعد صلاۃ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟
پھر بالفرض اگر فتاوی ابوالبرکات کا یہ مطلب ہو بھی تو اس قسم کے فتاوی ایک بات اور وہ بھی اتنی بے ثبات جس پر شروع سے اصلا دلیل نہیں، کیونکر ادنی التفات کے قابل ہو سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تدبر معنی جمال محمود و کمال مقصود ہے مگر فقہائے کرام نے عموماً عبادات کے کسی ذکر میں نفس نیت کے سوا قلب کا کوئی حصہ ایسا نہیں رکھا جس پر فساد وصحت کی بنا ہو یہاں تک کہ اصل حضور قلب جس کے معنی یہ ہیں کہ صدور فعل و قول پر متنبہ ہوا اگر چہ معنی کلام نہ سمجھے یہ بھی صحت نماز کے لئے ضروری نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 282