:سوال
میں اپنی زکوۃ کارو پیہ اپنے والد کو کسی حیلہ سے دے سکتی ہوں یا نہیں، کیونکہ ایسی غربت میں ہیں کہ باہر نکلنےمیں شرم آتی ہے اور وہ ایک آبرو دار آدمی ہیں، کوئی ایسا قابل اطمینان فقیر شرعی نہیں جسے دے دوں اور میرے والد کو دے دے، کوئی طریقہ ارشاد فرمائیں۔
:جواب
باپ کو زکوۃ دینا کسی طرح جائز نہیں ، نہ اُس کی دی زکوۃ ادا ہو سکے۔ یہ بات اگر واقعی ہے کہ باپ ایسا ہی حاجتمند ہے اور سائلہ میں یہ طاقت نہیں کہ زکوۃ بھی دے اور باپ کی بھی خدمت کرے اور ایسا اطمینان کا شخص کوئی نہیں پاتی کہ اسے زکوٰۃ دے اور وہ اپنی طرف سے اُس کے باپ کو دیں تو اس کا یہ طریقہ ممکن ہے کہ مثلاً دس روپیہ زکوۃ کے دینے ہیں اور چاہتی ہے کہ یہ روپیہ اس کے باپ کو پہنچے تو کسی فقیر مصرف زکوۃ کے ہاتھ مثلا دس سیر یا پانچ سیر گیہوں دس روپیہ کو بیچے اور اسے سمجھادے کہ زرثمن ادا کرنے کی تمھیں دقت نہ ہوگی ہم زکوة دیں گے اسی سے ادا کر دینا جب دو بیع قبول کرے گیہوں اس کو دے دے اب اُس کے دس درم بابت ثمن گندم اس پر قرض ہو گئے اُس کے بعد اسے دس روپیہ زکوۃ میں دے کر قبضہ کرادے زکوۃ ادا ہوگئی پھر گیہوں کی قیمت میں روپے واپس لے وہ یوں نہ دے تو جبرا لے سکتی ہے کہ وہ اس کا مدیویونہے اب یہ رو پیہ اپنے باپ کو دے دے۔
مگر اس کا لحاظ لازم ہے کہ محتاج باپ کا نفقہ اس کی سب غنی اولاد پر لازم ہے، بیٹا بیٹی سب پر برابر، تو اگر تنہا یہی اس کی اولاد ہے تو اس پر اس کا کل خرچ کھانے پہننے رہنے کے مکان کا لازم ہے اور اگر اور بھی توحصہ رسد اور زکوۃ بھی الله عز وجل کا غنی پر فرض ہے حیلہ کر کے دو واجبوں میں ایک کو ساقط نہ کرے، اللہ عز وجل دلوں کی نیت جانتا ہے، ہاں حقیقی قدرت نہ ہو تو حیلہ مذکورہ عمدہ وسیلہ ہے جس سے دونوں واجب ادا ہو سکیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 264