:سوال
فضائل کے معاملے میں ضعیف احادیث کا مقبول ہونا کیا احادیث سے بھی ثابت ہے؟
:جواب
جان برادر اگر چشم بینا ( دیکھنے والی آنکھ اور گوش شنوا ( سننے والا کان ) ہے تو تصریحات علما در کنار خود حضور ر و سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے احادیث کثیرہ ارشاد فرماتی آئیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے اور تحقیق صحت وجودت سند میں تعمق ( تہ تک پہنچنا ) وتدق (زیادہ غور و فکر کرنا ) راہ نہ پائے ولكن الوهابية قوم يعتدون
سید نا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اجمعین فر ماتے ہیں
من بلغه عن الله عز وجل شيء فيه فضيلة فاخذ به ايمان به ورجاء ثوابه اعطاه الله تعالى ذلك وان لم يكن كذلك
جیسے اللہ تبارک تعالی سے کسی بات میں کچھ فضیلت کی خبر پہنچے وہ اپنے یقین اور اُس کے ثواب کی اُمید سے اُس بات پر عمل کرے اللہ تعالی اسے وہ فضیلت عطا فرمائے اگر چہ خبر ٹھیک نہ ہو۔
دار قطنی کی حدیث میں یوں ہے
“اعطاءه الله ذلك الثواب وان لم يكن ما بلغه حقا “
اللہ تعالی اسے وہ ثواب عطاکرے گا اگر چہ جو حدیث اسے پہنچی حق نہ ہو۔
ابن حبان کی حدیث میں یہ لفظ ہیں
” کان منی اولم یکن
” ( چاہے وہ حدیث مجھ سے ہو یا نہ ہو
ابن عبد اللہ کے لفظ یوں ہیں
” وان كان الذي حدثه كاذباً
” (اگر چہ اس حدیث کا راوی جھوٹا ہو ) ۔
امام احمد وابن ماجہ و قیلی سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور پر نو رسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
” ما جاء كم على من خير قلته اولم اقله فاني اقوله وماجاء كم عنى من شرفانی لا اقول الشر”
تمہیں جس بھلائی کی مجھےسے خبر پہنچے خواہ وہ میں نے فرمائی ہویا نہ فرمائی ہو میں اسے فرماتا ہوں اور جس بری بات کی خبر پہنچے تو میں بُری بات نہیں فرماتا۔
خلعی اپنے فوائد میں حمزہ بن عبد المجد رحمہ اللہ تعال سے راوی
” رأیت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم في النوم في الحجر فقلت بابي انت وأمي يارسول الله انه قد بلغنا عنك انك قلت من سمع حديثا فيه ثواب فعمل بذلك الحديث رجاء ذلك الثواب اعطاه الله ذلك الثواب وان كان الحديث باطلا فقال اى ورب هذه البلدة انه لمنى وانااقلت “
میں نے حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خواب میں حطیم کعبہ معظمہ میں دیکھا عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ حضور پر قربان ہمیں حضور سے حدیث پہنچی ہے کہ حضور نے ارشاد فر مایا ہے جو شخص کوئی حدیث ایسی سنے جس میں کسی ثواب کا ذکرہو وہ اس حدیث پر بامید ثواب عمل کرے اللہ عزوجل اسے وہ ثواب عطا فرمائے گا اگر چہ حدیث باطل ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم نے فرمایا ہاں قسم اس شہر کے رب کی بے شک یہ حدیث مجھ سے ہے اور میں نے فرمائی ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
ابو یعلی اور طبرانی معجم اوسط میں سید نا ابی حمزہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
من بلغه عن الله تعالى فضيلة فلم يصدق بها لم يثلها “
جسے اللہ تعالی سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے اُس فضل سے اس فضل سے محروم رہے
ان احادیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جے اس قسم کی خبر پہنچی کہ جو ایسا کرے گا یہ فائدہ و پائے گا اسے چاہئے نیک نیتی سے اس پر عمل کرلے اور تحقیق صحت حدیث و نظافت سند کے پیچھے نہ پڑے وان شاء اللہ اپنے حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ ہی جائیگا۔
اقول یعنی جب تک اس حدیث کا بطلان ظاہر نہ ہوکہ بعد ثبوت بطلان ، رجاء امید کے کوئی معنے نہیں
اور وجہ اس عطائے فضل کی نہایت ظاہر کہ حضرت حق عز و جل اپنے بندہ کے ساتھ اس کے گمان پرمعاملہ فرماتا ہے حضور سیدنا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے رب عزوجل وعلا سے روایت فرماتے ہیں کہ مولا سبحانہ و تعالی فرماتا ہے کہ انا عند ظن عبدہ بی ( میں اپنے بندہ کے ساتھ وہ کرتا ہوں جب بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے) رواہ البخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجہ
جب اس نے اپنی صدق نیت سے اس پر عمل کیا اور رب عز جلالہ سے اس نفع کی امید رکھی تو مولا تبارک و تعالیٰ اکرم الاکرمین ہے اس کی امید ضائع نہ کرے گا اگر چہ حدیث واقع میں کیسی ہی ہو
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 486