:سوال
کیا عقل فضائل میں حدیث ضعیف کے مقبول ہونے کو مانتی ہے؟
:جواب
عقل اگر سلیم ہو تو ان نصوص وانقول کے علاوہ وہ خود بھی گواہ کافی ہے کہ ایسی جگہ ضعیف حدیث معتبر اور اس کاضعف مغتفر ( اس کا ضعف مٹ جاتا ہے ) کہ سند میں کتنے ہی نقصان ہوں آخر بطلان پر یقین تو نہیں فان الكلوب قد مصدق (بڑ ا جھوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے ) تو کیا معلوم کہ اس نے یہ حدیث ٹھیک ہی روایت کی ہو ۔
مقد مہ امام ابو عمر تقی الدین شہر زوری میں ہے
اذا قالوا فی حدیث انه غير صحيح فليس ذلك قطعا بانه كذب في نفس الامراذ قد يكون صدقا في نفس الأمر وانما المراد به أنه لم يصح اسناده على الشرط المذكور “
محد ثین جب کسی حدیث کو غیرصحیح بتاتے ہیں تو یہ اس کے فی الواقع کذب پر یقین نہیں ہوتا اس لئے کہ حدیث غیر صحیح کبھی واقع میں بچی ہوتی ہے اس سے تو اتنی مراد ہوتی ہے کہ اس کی سند اس شرط پر نہیں جو محدثین نے صحت کے لئے مقرر کی۔
تقریب وتدریب میں ہے
اذاقیل حديث ضعيف، فمعناه لم يصح اسناد، على الشرط المذكور لانه كذب في نفس الأمر لجواز صدق الكا ذب
کسی حدیث کو ضعیف کہا جائے تو معنی یہ ہیں کہ اس کی اسناد شرط مذکور پر نہیں نہ یہ کہ واقع میں جھوٹ ہے ممکن ہے کہ جھوٹے نے سچ بولا ہو۔
تصحیح و تضعیف صرف بنظر ظاہر ہیں واقع میں ممکن کے ضعیف صحیح ہو و بالعکس ۔
محقق فتح میں فرماتے ہیں
ان وصف الحسن والصحيح والضعيف انما هو باعتبار السد ظنا اما في الواقع فيجور غلط الصحيح وصحة الضعيف
حدیث کو حسن یا صحیح با ضعیف کہنا صرف سند کے لحاظ سے ظنی طور پر ہے واقع میں جائز ہے کہ صحیح نام اور ضعیف صحیح ہو۔
اقول ( میں کہتا ہوں یعنی امام اہل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ) یہی وجہ ہے کہ بہت احادیث جنہیں محدثین کرام اپنے طور پر ضعیف و نامعتبر ٹھہرا چکے علمائے قلب عرفائے رب ائمہ عارفین سادات مکاشفین قدسنا اللہ تعالی با سرار ہم الجلیلہ و نور قلوبنا بانوارھم الجمیلہ انہیں مقبول و معتمد بناتے اور بصیغ جزم وقطع حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نسبت فرماتے اور ان کے علاوہ بہت وہ احادیث تازہ لاتے جنہیں علماء اپنے زبرود فاطر میں کہیں نہ پاتے ان کے یہ علوم الہیہ بہت ظاہر بینوں کو نفع دینا درکنار الٹے باعث طعن ووقعیت وجرح واہانت ہو جاتے حالانکہ العظمتہ للہ وعباداللہ ان طاعنین بدرجہااتقی اللہ واعلم بااللہ واشد توقیانی القول عن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (حالانکہ وہ ان طعن کرنے والوں سے زیادہ اللہ تعالی سے خوف رکھنے والے اللہ تعالی کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے سرور دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط کرنے والے تھے)
میزان مبارک میں حدیث
اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم۔
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدار کرو گے ہدایت پاؤ گے۔ کی نسبت فرماتے ہیں۔
ھذا الحدیث وان کان فیہ مقال عندالمحدثین فھو صحیح عند اھل الکشف
اس حدیث میں اگرچہ محدثین کو گفتگو ہے مگر وہ اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے
کشف الغمہ عن جمیع آلا مہ میں ارشاد فرمایا
کان صلی اللہ تعالی یقول من صلی علی طھر قلبہ من النفاق کما یطھر الثواب بالماء۔ وکان صلی اللہ تعالیٰ یقول من قال صلی اللہ علی محمد فقد فتح علی نفسہ سبعین بابا من الرحمہ والقی اللہ مجلتہ فی قلوب الناس فلا یبغضہ الامن فی قلبہ نفاق قال شیخنا رضی اللہ تعالی عنه هذا الحديث والذي قبله رويناهما عن بعض العارفين عن الخضر عليه الصلاة والسلام عن رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم وهما عندنا صحيحان في اعلى درجات الصحة وان لم يثبتهما المحدثون على مقتضى اصطلاحهم
حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے جو مجھ پر درود بھیجے اس کا دل نفاق سے ایسا پاک ہو جائے جیسے کپڑا پانی سے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم فرماتے جو کہے صلی اللہ علی محمد “ اس نے سترہ دروازے رحمت کے اپنے اوپر کھول لیے اللہ عزو جل اُس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا کہ اُس سے بغض نہ رکھے گا مگر وہ جس کے دل میں نفاق ہوگا ۔ ہمارے شیخ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: یہ حدیث اور اس سے پہلی ہم نے بعض اولیاء سے روایت کی ہیں انہوں نے سید نا خضر علیہ اصل و السلام، انہوں نے حضور پر نور سیال امام علی افضل الصلاة واکمل السلام سے یہ دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک اعلیٰ درجہ کی صحیح ہیں اگر چہ محدثین اپنی اصطلاح کی بنا پر انہیں ثابت نہ کہیں۔
بالجملہ اولیاء کے لئے سوا اس سند ظاہری کے دوسرا طریقہ ارفع واعلیٰ ہے ولہذا حضرت سیدی ابویزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ وقدس سرہ السامی اپنے زمانہ کے منکرین سے فرماتے قدا خذتم علمكم ميتا عن ميت واخذنا علمنا عن الحي الذي لا يموت ” تم نے اپنا علم سلسلہ اموات سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم حی لا یموت سے لیا ہے۔ خاتم حفاظ الحدیث امام جلیل جلال المله والدین سیوطی قدس سره العزیز یہ پچھتر بار بیداری میں جمال جہاں آرائے حضور پر نور سید الانبیا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے بہرہ ور ہوئے بالمشافہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے تحقیقات حدیث کی دولت پائی بہت احادیث کی کہ طریقہ محد ثین پر ضعیف ٹھہر چکی تھیں تصحیح فرمائی۔ یہ نفیس و جلیل فائده کہ بمناسبت مقام بحمد اللہ تعالی نفع رسانی برادران دین کے لئے حوالہ قلم ہوا لوح دل پر نقش کر لینا
چاہے کہ اس کے جاننے والے کم ہیں اور اس لغزش گاہ میں پھسلنے والے بہت قدم ۔ بات دور پہنچی، کہنا یہ تھا کہ سند پر کیسے ہی طعن و جرح ہوں ان کے سبب بطلان حدیث پر جزم نہیں ہو سکتا ممکن کہ واقع میں حق ہو اور جب صدق کا احتمال باقی تو عاقل جہان نفع بے ضرر کی اُمید پاتا ہے اس فعل کو بجالاتا ہے دین و دنیا کے کام اُمید پر چلتے ہیں پھر سند میں نقصان دیکھ کر ایکدست اس سے دست کش ہونا کس عقل کا مقتضی ہے کیا معلوم اگر وہ بات سچی تھی تو خود فضیلت سے محروم رہے اور چھوٹی ہو تو فعل میں اپنا کیا نقصان ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 479 تا 494